فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
پس تم نے انھیں قتل نہیں کیا اور لیکن اللہ نے انھیں قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا جب تو نے پھینکا اور لیکن اللہ نے پھینکا اور تاکہ وہ مومنوں کو انعام عطا کرے، اپنی طرف سے اچھا انعام، بے شک اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 17 سے 18) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ غزوۂ بدر کی کامیابی کا اصل سبب۔ بدر کے لیے نبی اکرم (ﷺ) کا اپنے گھر سے نکلنا، بدر کی رات بارش کا ہونا، رات کو مسلمانوں کا پرسکون ہو کر سونا، پے درپے ملائکہ کی کمک کا پہنچنا، کفار پر مسلمانوں کا رعب طاری ہونا، نبی اکرم (ﷺ) کا مٹھی بھر کنکریوں کو کفار کے لشکر کی طرف پھینکنا، اللہ تعالیٰ کا کفار کی آنکھوں میں کنکریوں کا پہنچانا۔ سب کے سب اقدام صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد کا نتیجہ تھے۔ اس لیے بدر کی کامیابی کے بارے میں ارشاد فرمایا اے مسلمانو! اس کا میابی پر اترانے کے بجائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کو یاد رکھو کیونکہ تم تو ہر اعتبار سے کفار کے مقابلے میں کمزور اور ناتواں تھے۔ تم نے کفار کو قتل نہیں کیا یہ تو اللہ تعالیٰ نے انھیں قتل کیا ہے پھر نبی اکرم (ﷺ) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے کنکریاں نہیں پھینکیں وہ تو اللہ تعالیٰ نے پھینکی ہیں گویا کہ ایک ایک کافر کی آنکھ میں کنکریاں جھونکنا۔ نبی اکرم (ﷺ) کے بس کی بات نہ تھی۔ بدر میں مسلمانوں کو کامیابی سے اس لیے ہمکنار کیا گیا تاکہ ان کو فتح دے کر آزمائے اور دوسری طرف کفار کو ذلیل کردیا جائے۔ دنیا میں یہ پہلا معرکہ تھا کہ اتنے کمزور اور تھوڑے لوگوں نے اپنے سے تین گنابڑی قوت کو نہ صرف شکست دی بلکہ ان کے ستر سر کردہ لوگوں کو جہنم و اصل کرکے ستر آدمیوں کو گرفتار کرلیا جہاں تک اس میں مسلمانوں کی آزمائش کا تعلق ہے۔ اس کے لیے ﴿بلاءً حَسَنًا﴾ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزماتا ہے۔ بدر میں عظیم الشان کامیابی دے کر مسلمانوں کو آزمایا گیا اسی لیے سورۃ الحدید آیت 23میں یہ اصول بتلایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تم سے کوئی چیزلے لے تو زیادہ افسوس نہ کیا کرو اور جب وہ عطا فرمائے تو اس پر فخر و غرور نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ غرور کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ ﴿لِکَیْلَا تَأْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آَتٰاکُمْ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ﴾[ الحدید :23] ” اس لیے کہ جو تمھیں نہ مل سکے اس پر غم نہ کرو اور جو اللہ تمھیں دے اس پر اترایا نہ کرو اور اللہ کسی بھی خود پسند اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔“ (عَنْ أَبِی دَاوُدَ الْمَازِنِیِّ وَکَانَ شَہِدَ بَدْرًا قَالَ إِنِّی لَأَتْبَعُ رَجُلًا مِّنْ الْمُشْرِکِینَ لِاَضْرِبَہٗ إِذْ وَقَعَ رَأْسُہٗ قَبْلَ أَنْ یَصِلَ إِلَیْہِ سَیْفِی فَعَرَفْتُ أَنَّہُ قَدْ قَتَلَہٗ غَیْرِی) [ رواہ أحمد] ” حضرت ابی داؤد المازنی (رض) جو کہ بدر کے معرکہ میں شامل تھے بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مشرک کے پیچھے اسے قتل کرنے کے لیے بھاگ رہا تھا کہ اچانک میرے اس تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کی گردن کٹ گئی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اسے کسی اور نے قتل کیا ہے۔“ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ یَوْمَ بَدْرٍ ہٰذَا جِبْرِیلُ آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِہٖ عَلَیْہِ أَدَاۃُ الْحَرْبِ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب شہود الملائکۃ بدرا] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ نبی کریم (ﷺ) نے بدر کے دن فرمایا یہ جبرائیل ہیں جنہوں نے اپنے گھوڑے کی پیشانی پکڑی ہوئی ہے اور اس پر اسلحہ رکھا ہوا ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کبھی دے کر آزماتا ہے اور کبھی لے کر آزماتا ہے۔ 2۔ آزمائش کبھی نعمت کی شکل میں ہوتی ہے اور کبھی بیماری اور نقصان کی صورت میں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو دنیا میں بھی ذلیل کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : کفار کی تدابیرکی حقیقت : 1۔ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے تدبیر کی اللہ بہتر تدبیر فرمانے والا ہے۔ (الانفال :30) 2۔ انکے مکر کا انجام دیکھو ہم نے انہیں اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا۔ (النمل :51) 3۔ اللہ نے ان کی خفیہ تدبیروں سے آپ کو محفوظ رکھا۔ (المومن :45) 4۔ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے تدبیر کی اللہ بہتر تدبیر فرمانے والا ہے۔ (آل عمراٰن :54)