يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا، ایک لشکر کی صورت میں ملو تو ان سے پیٹھیں نہ پھیرو۔
فہم القرآن : (آیت 15 سے 16) ربط کلام : غزوۂ بدر کے واقعات کا بیان جاری ہے۔ زمانۂ قدیم اور آج بھی بنیادی طور پر جنگ دو طرح لڑی جاتی ہے۔ گوریلا وار، اور ایک دوسرے کے آمنے سامنے برسرپیکار ہونا۔ بدر کا معرکہ فریقین کے آمنے سامنے کی لڑائی تھی۔ جس کے لیے ﴿زَحْفاً﴾ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ زحفا بچے کے گھسٹ گھسٹ کر چلنے کو کہا جاتا ہے۔ لشکر بڑا ہو تو وہ بھی اپنے ساز و سامان کے ساتھ سست رفتاری سے چلتا ہے۔ بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کی تعداد ایک ہزار تھی اور ان کے ساتھ گھوڑے، خچر اور اونٹ بھی تھے۔ جس کی نقشہ کشی لفظ﴿زَحْفاً﴾ کے ذریعے کی گئی ہے۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب دشمن سامنے ہو یا مسلمانوں پر جنگ مسلط کردی جائے تو اس صورت میں پیٹھ پھیر کر بھاگنے کے بجائے جان پر کھیل جانا چاہیے۔ جو مجاہد دشمن کے مقابلے میں پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے ساتھ لوٹے گا۔ اگر وہ اسی حالت میں مر جائے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا کیونکہ اس نے اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کے مفاد پر اپنے آپ اور اپنے مفاد کو ترجیح دی۔ البتہ جنگی حکمت عملی کے تحت مورچہ چھوڑنا یا ایک محاذ کے بجائے اپنے کمانڈر کے حکم پر دوسرے محاذ پر جانا یا دشمن پر حملہ آور ہونے کے لیے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ملنے کی خاطر پیچھے پلٹتا ہے تو اس پر کوئی جرم نہیں۔ کیونکہ حالت جنگ میں یہ تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے۔ حالت جنگ میں بھاگنا اس لیے سنگین جرم ہے کہ ایک شخص کے بھاگنے سے دوسرے ساتھیوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں۔ اس طرح بھاگنا مسلمان کی غیرت کے منافی ہے۔ جنگ سے فرار موت کے ڈر سے ہوتا ہے۔ جبکہ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے لہٰذا بھاگنا بزدلی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ قَالُوا یَا رَسُول اللّٰہِ وَمَا ہُنَّ قَال الشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِی حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبَا وَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیمِ وَالتَّوَلِّی یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَات) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب رمی المحصنات] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا۔ سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچو۔ صحابہ کرام (رض) نے استفسار کیا۔ اے اللہ کے رسول! وہ کون سی ہیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، کسی کو ناجائز قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال ہڑپ کرنا، لڑائی کے دن میدان سے بھاگنا، معصوم اور بے گناہ عورتوں پر الزام لگانا۔“ مسائل : 1۔ مجاہد کو میدان کارزار میں دشمن کے خلاف ڈٹ کر لڑنا چاہیے۔ 2۔ حالت جنگ میں پیٹھ پھیرنا سنگین جرم ہے۔ 3۔ میدان جنگ سے بھاگنے والے پر اللہ کا غضب ہوتا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : جہاد میں ثابت قدم رہنے کا حکم : 1۔ مسلمانوں کفار سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو۔ (الانفال :15) 2۔ جب کفار سے تمھارا مقابلہ ہو تو ان کی گردنیں اڑادو۔ (محمد :4) 3۔ غم نہ کرو تم ہی غالب آؤ گے اگر تم ایماندار ہو۔ (آل عمران :139) 4۔ اے ایمان والو ! جب کسی لشکر سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو۔ (الانفال :45)