يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
وہ تجھ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے غنیمتیں اللہ اور رسول کے لیے ہیں، سو اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو، اگر تم مومن ہو۔
فہم القرآن : عربوں کے ہاں یہ اصول تھا کہ جنگ میں شریک ہونے والے شخص کے جو ہاتھ آتا وہ اسی کا مال سمجھا جاتا تھا غزوۂ بدر میں جب مسلمانوں کو مال غنیمت ہاتھ آیا تو اس کی تقسیم کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اس جنگ میں کچھ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین رسول معظم (ﷺ) کے کیمپ کی حفاظت کر رہے تھے۔ ایک گروہ نے بھاگتے ہوئے کفار کا تعاقب کیا اور دوسروں نے مال غنیمت جمع کیا۔ اس صورت حال میں مال غنیمت جمع کرنے والوں کا مطالبہ تھا کہ یہ مال و اسباب ہم نے جمع کیا لہٰذا قدیم اصول کے مطابق اس کا استحقاق ہمارے سوا کسی کو نہیں ہے اس پر کچھ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے نبی معظم سے مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں سوال کیا۔ جس کا اللہ تعالیٰ نے جواب عنایت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ انھیں بتلائیں کہ یہ مال اللہ اور اس کے رسول کی ملکیت ہے۔ جس میں دو حکمتیں پنہاں ہیں۔ 1۔ تم اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے تابع ہو اس لیے اس کے حقیقی مالک اللہ اور اس کے رسول ہیں۔ 2۔ تمھاری اکثریت گھروں سے قتال کے ارادے سے نہیں نکلی تھی یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت کے تحت تمھیں تمھارے گھروں سے نکال کر یہاں لاکھڑا کیا ہے اس لیے یہ مال انفال کا درجہ رکھتا ہے۔ جو مال مسلمانوں کو حالت جنگ میں ملتا ہے اس کے بارے میں قرآن مجید میں تین الفاظ پائے جاتے ہیں : 1۔ انفال 2۔ فئی 3۔ غنیمت اہل علم نے ان الفاظ کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انفال نفل کی جمع ہے جس کا معنی زائد چیز ہے اس لیے فرض عبادت کے علاوہ دوسری عبادت کو نفلی عبادت کہا جاتا ہے۔ مجاہد کے سامنے مال کے بجائے اعلائے کلمۃ اللہ کا مقصد ہوتا ہے اس کے لیے مال ایک زائد چیز ہے جس کی وجہ سے انفال کہا گیا ہے۔ 1۔ کفار کا جو مال بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اسے مال فئی کہا جاتا ہے۔ (الحشر :6) 2۔ غنیمت سے مراد وہ مال ہے جو باضابطہ جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ آئے اسے غنیمت کہا جاتا ہے۔ لیکن عمومی طور پر تمام اموال کو مال غنیمت ہی شمار کیا جاتا ہے جس کے بارے میں یہ اصول بیان ہوا۔ پورے مال میں اللہ اور اس کے رسول کا پانچواں حصہ ہوگا۔ (الانفال، آیت :41) اس جواب کے بعد یہ ہدایات دی گئیں کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اپنی اصلاح کرتے رہو اور ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے لیے کمر بستہ رہو اگر تم حقیقتاً ایمان رکھنے والے ہو۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ أُعْطِیتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ)[ رواہ مسلم : کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا مجھے تمام انبیاء (علیہ السلام) پر چھ فضیلتیں عنایت کی گئیں : 1۔” مجھے جوامع الکلم کی صلاحیت عطا کی گئی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے خصوصی رعب اور دبدبہ سے میری مدد فرمائی۔ 3۔ مال غنیمت میرے لیے حلال کردیا گیا۔ 4۔ میرے لیے ساری زمین کو پاک اور مسجد بنا دیا گیا۔ 5۔ مجھے تمام انسانوں کے لیے رسول بنایا گیا۔ 6۔ مجھ پر سلسلۂ نبوت ختم کردیا گیا۔ مسائل : 1۔ غنائم اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ 2۔ آدمی کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ 3۔ مسلمانوں کو اپنی اصلاح پر توجہ رکھنی چاہیے۔ 4۔ سچے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے فائدے : 1۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ایمان کی نشانی ہے۔ (الانفال :1) 2۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت باعث رحمت ہے۔ (التوبۃ:71) 3۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔ (النور :52) 4۔ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرنے والے کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ (النساء :13) 5۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے انبیاء، صلحاء شہداء، اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔ (النساء :69)