مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
جو بھی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں، یا اسے بھلا دیتے ہیں، اس سے بہتر، یا اس جیسی (اور) لے آتے ہیں، کیا تو نے نہیں جانا کہ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
فہم القرآن : ( آیت 106 سے 107) ربط کلام : اہل کتاب اس قدر بے باک اور مسلمانوں کی دشمنی میں آگے جا چکے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں مداخلت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنی کتاب میں ترمیم و اضافہ کرے۔ اس بہانے وہ کتاب اللہ پر اعتراض اور نبی اکرم {ﷺ}کی نبوت پر تنقید کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے دلوں میں حسد ہے جس بنا پر ایسی باتیں کرتے ہیں۔ نسخ کا معنٰی ہے کسی بات کو مٹانا یا اس کا ازالہ کرنا ہے۔ اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں : (1) ایک حکم خاص مدت کے لیے ہو، دوسری مدت کے لیے دوسرا حکم نازل ہوجائے۔ (2) تربیت اور خاص مصلحت کی خاطر پہلے حکم میں نرمی اور کچھ گنجائش رکھی گئی ہو بعد ازاں مکمل اور دائمی حکم نازل کردیا جائے۔ جس طرح شراب کی حرمت، قبلہ کی تبدیلی اور دوسرے معاملات کے بارے میں تدریجاً احکامات نازل ہوئے۔ قرآن مجید میں اس کے برعکس بھی مثال موجود ہے کہ قتال کے سلسلہ میں پہلا حکم سخت تھا لیکن اس کے بعد اس میں نرمی کردی گئی۔ (3) پہلا حکم لوگوں کی خاص حالت کے بارے میں ہوبعدازاں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اسے کلیۃً منسوخ کردیا جائے اور اس کی جگہ اس سے ملتا جلتا یا اس سے جامع اور کثیر المقاصد حکم نازل ہو۔ قرآن مجید میں تینوں اقسام کی امثال موجود ہیں۔ جن علماء نے ان تینوں اقسام کو ناسخ اور منسوخ میں شامل کیا ہے انہوں نے درجنوں آیات کو اس زمرہ میں شامل کردیا حالانکہ ناسخ‘ منسوخ کو حقیقی اور کلی معنوں میں لیا جائے تو ان کی تعداد چند آیات سے زیادہ نہیں ہے۔ اس بنا پر شاہ ولی اللہ {رض}نے صرف پانچ آیات کو منسوخ شمار کیا ہے۔ ناسخ اور منسوخ کے حوالے سے اہل کتاب اور مشرک دو قسم کے اعتراض کیا کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو فکری الجھاؤ میں مبتلا کر کے ان کے ایمان وا یقان میں تذبذب پیدا کیا جا سکے۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ تورات اور انجیل اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہیں اور یہ قرآن ان کی تائید کرتا ہے تو پھر انہیں منسوخ کرنے اور الگ کتاب نازل کرناچہ معنی دارد؟ دوسرا اعتراض یہ تھا اور ہے کہ قرآن مجید میں فلاں مقام پر یہ مسئلہ پہلے اس طرح تھا اور اب اس میں ترمیم و اضافہ کیوں کیا گیا ہے؟ ان اعتراضات کا جواب دینے سے پہلے یہاں بنیادی بات یہ ارشادفرمائی کہ یہ حاکم مطلق کی مرضی اور اس کی مشیّت ہے کہ شریعت کے جس حکم کو چاہے معطل یا منسوخ کرے۔ اس میں مخلوق کا نہ تو عمل دخل ہے اور نہ ہی کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو منسوخ کرنا کسی شخص کا اختیار نہیں۔ یہاں تک کہ جس شخصیت گرامی پر اللہ کی کتاب نازل ہوئی ہے حضرت محمد {ﷺ}بھی اس میں زیروزبر کی تبدیلی کا اختیار نہیں رکھتے۔ یہ تو اس قادر مطلق اور شہنشاہ عالم کا اختیار ہے کہ وہ اپنے حکم کو جس طرح چاہے جب چاہے اور جس قدر چاہے اس میں تبدیلی کرے۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اختیارات پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اس لیے ان آیات کے آخر میں پر جلال اور حاکمانہ انداز میں فرمایا ہے کہ اللہ ہی قادر مطلق با اختیار اور زمین و آسمان کا مالک ہے وہ تمہاری خیر خواہی کے لیے اپنے ضابطوں میں تبدیلی کرتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی تمہارا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکین ومنکرین کسی خیر خواہی کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ بد نیتی وبددیانتی کی بنا پر اس قسم کے اعتراضات اٹھاتے ہیں۔ متعدد مقامات پر قرآن مجید نے پہلے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اے اہل کتاب تم نے اپنی کتابوں میں اس قدر تحریف کی کہ ان کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا اور یہ بھی یاد رکھو کہ وہ مخصوص مدت کے لیے ہی نازل کی گئیں تھیں۔ جس طرح حکومتوں کے بدلنے سے قانون بدلتے ہیں اس طرح ایک رسول کے بعد دوسرے رسول کے آنے پر شریعت میں تبدیلی لائی جاتی رہی ہے۔ یہ تو محمد عربی {ﷺ}کا اعزازوا کرام ہے کہ آپ قیامت تک کے لیے رسول ہیں اور آپ پر نازل کردہ قرآن بھی قیامت تک رہے گا۔ اس میں ترمیم و اضافہ کرنے کا کوئی مجاز نہیں اور اللہ تعالیٰ نے تا قیام قیامت اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے۔ دوسرے سوال کا جواب یہ عنایت فرمایا کہ تمہارے لیے بہت سی چیزیں حرام تھیں اب انہیں حلال کردیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ تمہاری بہتری کے لیے ہی کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی تمہیں زیب نہیں دیتا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے احکام منسوخ کرنے یا ان میں ردّ وبدل کرنے کا پورا حق ہے۔ 2۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔