قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
کہہ دے اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، وہ (اللہ) کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی صرف اس کی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، پس تم اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی پر ایمان لاؤ، جو اللہ اور اس کی باتوں پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
فہم القرآن : ربط کلام : یہود و نصاریٰ کو ایمان کی دعوت کے ساتھ بنی نوع انسان کو ایمان کی دعوت اور قرآن مجید میں رسول اکرم (ﷺ) کا ذکر گرامی آپ کی زبان اطہر سے نبوت کا اعلان۔ قرآن مجید کے مختلف مقامات میں نبی آخر الزمان (ﷺ) کی نبوت و رسالت کا تذکرہ موجود ہے لیکن اس مقام پر آپ کی زبان اطہر سے یہ کہلوایا گیا ہے کہ اے رسول! آپ از خود اعلان کریں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے سب کے لیے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ سب سے مراد ہر علاقے اور ہر زمانے کے لوگ ہیں۔ امام ابن کثیر (رض) نے اس آیت سے آپ کی ختم نبوت کا استدلال کیا ہے۔ کیونکہ آپ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے رسول منتخب کیے گئے ہیں لہٰذا آپ کے بعد اب کسی نبی اور رسول کی گنجائش نہیں۔ یہاں آپ کی عالمگیر نبوت کا یہ بھی ثبوت ہے جس طرح اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا بلا شرکت غیرے مالک اور معبود ہے اسی طرح کسی شراکت کے بغیر آپ بھی قیامت تک کے لیے بنی نوع انسان کے لیے رسول ہیں۔ ” الٰہ“ کا معنی ہے معبود، خالق، مالک، رازق اور حاجت روا مشکل کشا۔ دلائل کے طور پر سورۃ النمل آیت 60تا 64کی تلاوت کیجیے۔ جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خالق و مالک اور معبود نہیں تو پھر اسی کی ذات کبریاء پر کامل اور اکمل ایمان لانا چاہیے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں اکیلا ہے اسی طرح حضرت محمد (ﷺ) اپنی نبوت و رسالت میں اکیلے ہیں۔ لہٰذا کلمہ کی تکمیل اور توحید کے تقاضے تب ہی پورے ہو سکتے ہیں کہ نبی (ﷺ) کو خاتم المرسلین تسلیم کرکے ان پر ایمان لایا جائے اور آپ کی رسالت کا مرکزی اور بنیادی تقاضا یہ ہے کہ جو روشنی آپ پر نازل ہوئی وہ قرآن مجید کی شکل میں ہو یا حدیث کی صورت میں اس کی اتباع کی جائے۔ اتباع کرنے والا ہی ہدایت یافتہ ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی بُعِثْتُ إِلَی الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ فَیُرْعَبُ الْعَدُوُّ وَہُوَ مِنِّی مَسِیْرَۃَ شَہْرٍ وَقِیلَ لِیْ سَلْ تُعْطَہْ وَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی فَہِیَ نَائِلَۃٌ مِنْکُمْ إِنْ شَاء اللَّہُ تَعَالَی مَنْ لَّمْ یُشْرِکْ باللَّہِ شَیْئًا)[ مسند احمد] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (ﷺ) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عنایت کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔ 1۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے۔ 2۔ میرے لیے ساری زمین پاک اور مسجد بنادی گئی ہے۔ 3۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا۔ 4۔ میری رعب سے مدد فرمائی گئی ہے کیونکہ ایک مہینہ کی مسافت پر ہونے کے باوجود دشمن مجھ سے لرزاں رہتا ہے۔ 5۔ مجھے قیامت کے دن کہا جائے گا مانگیں عطا کیا جائے گا اور میری امت کے حق میں میری شفاعت قبول کی جائے گی۔ جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوگا اس کو میری شفاعت پہنچے گی۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ أُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ) [ رواہ مسلم : کتاب المساجد، و مواضع الصلاۃ ] دوسرے موقعے پر حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ نے یوں فرمایا مجھے انبیاء پر چھ فضیلتیں عنایت کی گئی ہیں۔ 1۔ مجھے جوامع الکلم کی صلاحیت عطا کی گئی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے خصوصی رعب اور دبدبہ سے میری مدد فرمائی ہے۔ 3۔ مال غنیمت میرے لیے حلال کردیا گیا۔ 4۔ میرے لیے ساری زمین کو پاک اور مسجد بنا دیا گیا۔ 5۔ مجھے تمام انسانوں کے لیے رسول بنایا گیا اور مجھ پر سلسلۂ نبوت ختم کردیا گیا۔ (عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَقُولُ لَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَلاَ یَتْرُکُ اللَّہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ إِلاَّ أَدْخَلَہُ اللَّہُ ہَذَا الدِّینَ بِعِزِّ عَزِیزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِیلٍ عِزًّا یُعِزُّ اللَّہُ بِہِ الإِسْلاَمَ وَذُلاًّ یُذِلُّ اللَّہُ بِہِ الْکُفْرَوَکَانَ تَمِیمٌ الدَّارِیُّ یَقُولُ قَدْ عَرَفْتُ ذَلِکَ فِی أَہْلِ بَیْتِی لَقَدْ أَصَابَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمُ الْخَیْرُ وَالشَّرَفُ وَالْعِزُّ وَلَقَدْ أَصَابَ مَنْ کَانَ مِنْہُمْ کَافِراً الذُّلُّ وَالصَّغَارُ وَالْجِزْیَۃُ)[ مسند احمد] ” حضرت تمیم داری (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا اسلام وہاں تک پہنچے گا جہاں جہاں رات دن کا سلسلہ چلتا ہے کوئی کچاپکامکان ایسا نہیں ہوگا جس میں یہ دین داخل نہ ہوعزت دار کی عزت کے ساتھ یا ذلیل کو ذلت کے ساتھ اللہ تعالیٰ عزت والے کو اسلام کی بنیاد پر عزت سے نوازے گا اور کافر کو اس کی وجہ سے ذلیل کرے گا۔ حضرت تمیم داری کہا کرتے تھے میرے گھر میں جو عزت وبھلائی ہے وہ اسلام کی وجہ سے ہے اور کافر کو اسلام نہ لانے کی وجہ سے ذلت، کمتری اور جزیہ سے دوچار ہوناپڑتا ہے۔“ مسائل : 1۔ حضرت محمد (ﷺ) قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے رسول بنائے گئے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ، ہمیشہ قائم ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ 3۔ قرآن و سنت کی اتباع کرنے والا ہی ہدایت یافتہ ہوسکتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : رسول مکرم (ﷺ) کے اوصاف کی ایک جھلک : 1۔ آپ کے اوصاف تورات اور انجیل میں موجود ہیں۔ (الاعراف :157) 2۔ قرآن پڑھ کر سنانا، کتاب و حکمت کی تعلیم دینا، لوگوں کا تزکیۂ نفس کرنا۔ (البقرۃ : 129، الجمعۃ:2) 3۔ آپ (ﷺ) خلق عظیم کے مالک ہیں۔ (القلم :4) 4۔ آپ (ﷺ) بشیر اور نذیر ہیں۔ (الفتح :8) 5۔ آپ (ﷺ) بہترین نمونہ ہیں۔ (الاحزاب :21) 6۔ آپ (ﷺ) رحمت عالم ہیں۔ (الانبیاء :107) 7۔ آپ (ﷺ) لوگوں کے بوجھ اتارنے والے ہیں۔ (الاعراف :157) 8۔ آپ (ﷺ) لوگوں کے ہمدرد اور خیر خواہ بنائے گئے۔ (التوبۃ:128) 9۔ آپ (ﷺ) مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبّیین ہیں۔ (الاحزاب :40) 10۔ آپ (ﷺ) اللہ کی طرف بلانے والے اور آپ کو روشن چراغ بنایا گیا ہے۔ (الاحزاب :46) 11۔ آپ (ﷺ) کو ساری دنیا کے لیے رسول مبعوث کیا گیا۔ (السبا :28) 13۔ آپ (ﷺ) اور آپ کے ساتھی کفار کے لیے بڑے سخت اور آپس میں بڑے رحمدل ہیں۔ (الفتح :29)