سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِن يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوا بِهَا وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ
عنقریب میں اپنی آیات سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا جو زمین میں حق کے بغیر بڑے بنتے ہیں اور اگر ہر نشانی دیکھ لیں تو بھی اس پر ایمان نہیں لاتے اور اگر بھلائی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے راستہ نہیں بناتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھیں تو اسے راستہ بنا لیتے ہیں، یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور وہ ان سے غافل تھے۔
فہم القرآن : (آیت 146 سے 147) ربط کلام : بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ تورات کو اچھی طرح پکڑے رکھیں مگر انھوں نے اس حکم کی پرواہ نہ کی جس کا انجام بیان کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں انسان کی دنیا وآخرت کی بہتری کے لیے بڑے ہی مؤثر اور دل نشین انداز میں ہدایات فرمائی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جو شخص یا قوم اللہ تعالیٰ کی نصیحت اور اس کی خیر خواہانہ رہنمائی کو اپنی رعونت اور تکبر سے ٹھکرا دیتا ہے۔ اس کی دنیا میں یہ سزا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے ہدایت کو دور کردیتا ہے ایسے شخص یا قوم کے پاس کوئی بھی نشانی اور معجزہ آئے تو وہ اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اگر انھیں ہدایت کے راستہ کی طرف بلایا جائے تو وہ اس پر چلنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔ ان کا مزاج اس قدر بگڑ جاتا ہے کہ وہ ہر برائی اور گمراہی کے راستہ پر چلنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنی رعونت اور تکبر کے سبب اللہ تعالیٰ کے احکام کو جھٹلاتے ہوئے تغافل کرتے ہیں۔ جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے احکام جھٹلائیں اور آخرت کی جواب دہی کا انکار کریں ان کے سب کے سب اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو جھٹلاتے اور آخرت کی جواب دہی کے منکر تھے۔ یہاں متکبرین کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم انھیں اپنی آیات سے پھیر دیتے ہیں یہ مضمون مختلف الفاظ میں پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ اللہ ہی ہدایت دینے والا اور گمراہ کرنے والا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرتا جب مجرم ہدایت کو اپنی رعونت کی وجہ سے قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی ہدایت کیوں مسلط کرے گا۔ یہاں آیات سے پھیر دینے کا یہی مطلب لینا چاہیے۔ جہاں تک آخرت میں متکبرین اور مکذبین کو دنیا کی کسی نیکی کے صلہ سے محروم رکھنے کا تعلق ہے وہ اس لیے ہے کہ ایسا شخص اگر کوئی نیکی کا کام کرتا ہے تو محض اپنی طبیعت کے سکون اور دنیا کی ناموری اور فائدے کے لیے کرتا ہے۔ اسے اچھی شہرت اور کسی نہ کسی شکل میں دنیا میں اس کا صلہ مل جاتا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس لیے اس کی نیکی کا آخرت میں بدلہ نہیں دیا جائے گا۔ (عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِینَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لَا یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیئَتِی یَوْمَ الدِّینِ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے رسول مکرم (ﷺ) سے استفسار کیا اے اللہ کے رسول ابن جدعان جاہلیت کے زمانے میں صلہ رحمی اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا۔ تو کیا قیامت کے دن اسے یہ چیز فائدہ دے گی نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے کبھی یہ بات نہیں کہی تھی اے میرے رب! قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرمانا۔“ یعنی وہ قیامت کے دن پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب متکبر لوگ کرتے ہیں۔ 2۔ کافر ہدایت کی بجائے گمراہی کے راستے پر چلتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : کن لوگوں کے اعمال ضائع ہونگے : 1۔ آخرت کا انکار کرنے والوں کے اعمال ضائع ہوجا تے ہیں۔ (الاعراف :147) 2۔ مشرکین کے اعمال ضائع کردئیے جائیں گے۔ (التوبۃ:17) 3۔ ایمان کے ساتھ کفر اختیار کرنے والوں کے اعمال ضائع کر دئیے جاتے ہیں۔ (المائدۃ:5) 4۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں کے اعمال برباد کردئیے جاتے ہیں۔ (محمد :33) 5۔ وہ لوگ جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ان کے اعمال غارت کر دئیے جائیں گے۔ (آل عمران : 21۔22)