ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَظَلَمُوا بِهَا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ
پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو انھوں نے ان کے ساتھ ظلم کیا۔ پھر دیکھ فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟
فہم القرآن : (آیت 103 سے 108) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑنے والی اقوام میں آل فرعون سرفہرست تھے۔ جنھوں نے نہ صرف اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کی بار بار وعدہ خلافی کی بلکہ قوم کے مزاج اور مشرکانہ عقائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرعون نے ﴿اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی﴾ کا دعویٰ کیا تھا۔ فرعون مصر کے حکمران کا اصلی نام نہیں بلکہ اس کا یہ سرکاری لقب تھا۔ قدیم تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یمن کا حکمران تبع، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، روم کا حکمران قیصر، ایران کا فرمانروا کسریٰ کہلواتا اور ہندوستان کے حکمران اپنے آپ کو راجا کہلوانا پسند کرتے تھے۔ جس طرح آج کل صدارتی نظام میں حکمران پریذیڈنٹ اور پارلیمانی نظام رکھنے والے ممالک میں وزیر اعظم اور جرمن کا حکمران چانسلر کہلواتا ہے اسی طرح ہی مصر کا بادشاہ سرکاری منصب کے حوالے سے فرعون کہلواتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا جس فرعون سے واسطہ پڑا اس کا نام قابوس یا رعمیس تھا۔ یہ فرعون اپنے آپ کو خدا کا اوتار سمجھتے ہوئے لوگوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوا۔ کہ اگر میں خدا کا اوتار نہ ہوتا تو دنیا کی سب سے بڑی مملکت کا فرمانروا نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر اس نے لوگوں کے مزاج اور مشرکانہ عقائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو رب اعلیٰ قرار دیا۔ قوم اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے دعویٰ کیا کہ زمین و آسمان میں مجھ سے بڑھ کر کوئی رب نہیں ہے میں ہی سب دیوتاؤں سے بڑا دیوتا اور سب سے اعلیٰ اور اولیٰ کائنات کا رب ہوں۔ اس کی جھوٹی خدائی کے پرخچے اڑانے اور اس کی کذب بیانی کا پول کھولنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی کے گھر میں پرورش پانے والے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول منتخب فرمایا۔ جن کی پیدائش کا تفصیلی تذکرہ سورۃ القصص کی ابتدائی 32آیات میں کیا گیا ہے جس کی ابتدا اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی۔ ” اے نبی یہ کتاب مبین کی آیات ہیں جن میں ہم آپ کے سامنے فرعون اور موسیٰ کا واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں فرعون زمین پر بڑا بن بیٹھا اور اس نے اپنی قوم کو طبقاتی کشمکش میں مبتلا کردیا تھا۔ ایک طبقہ کو مراعات یافتہ اور دوسرے کو غلامی اور پسپائی کی گھاٹیوں میں دھکیل رکھا تھا۔ ان حالات میں ہم نے فیصلہ کیا کہ کمزور لوگوں کو زمین میں فرمانروائی سے سرفراز کیا جائے تاکہ فرعون اور اس کے لشکروسپاہ کو وہ کچھ دکھایا جائے جس کے دیکھنے سے ڈرتے تھے۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے بنی اسرائیل کو اس لیے دبا رکھا تھا کہیں یہ لوگ قوت حاصل کرکے ہمارے خلاف برسر پیکار نہ ہوجائیں۔“ بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کی ابتدا۔ یوں ہوئی کہ فرعون کے درباریوں نے اسے یہ بتلایا کہ بنی اسرائیل کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو تیری خدائی کو چیلنج کرے گا۔ فرعون نے اس بنا پر بنی اسرائیل کے نومولود بچوں کو قتل کروانا شروع کیا لیکن یہ سوچ کر اپنے قانون میں ترمیم کی۔ اس طرح تو ہماری خدمت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا لہٰذا ایک سال بچوں کو قتل کیا جائے اور دوسرے سال کے بچوں کو باقی رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیے کہ اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی والدہ ماجدہ کے ہاں اس سال جنم لیتے ہیں جس سال بچوں کو قتل کیا جا رہا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو ان کی والدہ انتہائی خوفزدہ ہوئیں کہ جونہی حکومت کے کار پر دازوں کو میرے ہاں پیدا ہونے والے بچے کا علم ہوگا تو وہ میرے لخت جگر کو قتل کردیں گے۔ سورۃ القصص کی آیت ٧ میں موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے اسے القا کیا کہ جب بیٹے کی جان کا خطرہ محسوس کرو تو اسے دریا کی لہروں کے سپرد کردینا لیکن ڈرنے کی ضرورت نہیں ہم نہ صرف اسے تیرے پاس لے آئیں گے بلکہ آپ کا بیٹا انبیاء (علیہ السلام) کی جماعت کا ایک فرد ہوگا۔“ چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے اپنے بیٹے کو دریا کے سپرد کیا جسے آل فرعون نے اٹھا لیا۔ جب فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے لگا تو اس کی بیوی نے اسے سمجھایا کہ اتنے پیارے بچے کو قتل نہ کرو ممکن ہے بڑا ہو تو ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں۔ جب دودھ پلانے کا مرحلہ آیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے غیر عورتوں کا دودھ پینے سے انکار کردیا۔ جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے موسیٰ پر سب عورتوں کا دودھ حرام قرار دیا تھا۔ بالآخر مجبور ہو کر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو ہی انجانے میں اس کی دایہ مقرر کردیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) بھرپور جوان ہوئے تو ان کے ہاتھوں آل فرعون کا ایک فرد سہواً قتل ہوگیا۔ جس کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر سے ہجرت فرمائی اور وہ مدین میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ہاں آٹھ، دس سال داماد بن کر زیر تربیت رہے۔ پھر مصر واپس آتے ہوئے راستہ میں انھیں نبوت عطا ہوئی اور اس کے ساتھ ہی انھیں دو عظیم معجزے عطا کیے گئے۔ جس لاٹھی کے ساتھ وہ بکریاں ہانکا کرتے تھے۔ اس میں معجزانہ قدرت پیدا کی گئی کہ وہ حسب ضرورت بہت بڑا اژدہا بن جاتی اور دوسرا معجزہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ عطا کیا گیا کہ جب وہ اپنا دایاں ہاتھ بائیں بغل میں دبا کر باہر نکالتے تو اس کے سامنے چاند اور سورج کی روشنی بھی مدہم دکھائی دیتی تھی۔ یہاں انھی دو معجزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۃ القصص، آیت : ٣٤ میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنا معاون بنانے کی دعا کی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بھائی اور معجزات کے ساتھ فرعون کے دربار میں پہنچے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا خطاب : آل فرعون انتہائی ظالم لوگ تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے رب العالمین کی طرف سے رسول بنایا گیا ہے اور میں وہی بات کہوں گا جس کے کہنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے میں تمھارے پاس اپنے رب کی ربوبیت اور وحدت کے ٹھوس اور واضح دلائل لایا ہوں۔ اس لیے تمھیں اپنی خدائی چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا رب ماننا چاہیے اس کے ساتھ میرا یہ مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردیا جائے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا جواب دیتے ہوئے کہا اگر تو واقعی اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کرو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فی الفور اپنا عصا زمین پر پھینکا جو بہت بڑا اژدہا بن کر لہرانے لگا۔ جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اتنا بڑا اژدہا بن کر سامنے آیا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنے جبڑوں میں سب کو نگل لے گا۔ یہ دیکھتے ہی فرعون اور اس کے درباری اپنی جان بچانے کے لیے دوڑتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) سے فریادیں کرنے لگے کہ ہمیں اس سے بچائیں۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو پکڑ لیا جو پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ اپنی بغل میں ہاتھ دبا کر باہر نکالا تو اس کے سامنے تمام روشنائیاں ماند پڑگئیں۔ ہاتھ دیکھنے والے حیران اور ششد ررہ گئے کہ یہ تو سورج اور چاند سے زیادہ روشن ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کے سامنے سورج کی روشنی ماند پڑتی دکھائی دیتی تھی۔ (روح المعانی و جامع البیان) مسائل : 1۔ فرعون اور اس کے ساتھی بدترین قسم کے ظالم تھے۔ 2۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کی پالیسی اور ان کے کردار سے ملک میں فساد پھیل چکا تھا۔ 3۔ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سچے رسول تھے۔ 4۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اللہ کی توحید کے دلائل دیے اور اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ 5۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے لاٹھی اور ید بیضاء کے دو عظیم معجزے عطا فرمائے۔ تفسیر بالقرآن : نافرمان اور فساد کرنے والوں کا انجام : 1۔ دیکھیں فساد کرنے والوں کا انجام کیا ہوا۔ (الاعراف :103) 2۔ دیکھیں ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔ (یونس :39) 3۔ دیکھیں نافرمانوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الاعراف :84) 4۔ زمین میں چل کر دیکھیں مجرموں کا انجام کیسے ہوا۔ (النمل :69) 5۔ آپ (ﷺ) دیکھیں جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ (الزخرف :25)