أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ أَهْلِهَا أَن لَّوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ ۚ وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ
اور کیا ان لوگوں کی رہنمائی جو زمین کے وارث اس کے رہنے والوں کے بعد بنتے ہیں، اس بات نے نہیں کی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کی وجہ سے انھیں سزا دیں اور ہم ان کے دلوں پر مہر کردیتے ہیں تو وہ نہیں سنتے۔
فہم القرآن : (آیت 100 سے 101) ربط کلام : دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھانے والے لوگوں کا رویہ اور ان کی عادات۔ ایک مرتبہ پھر غافل اور نافرمانوں کو انتباہ کیا جا رہا ہے۔ کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ آج جن بستیوں اور سر زمین کے یہ وارث بنے ہوئے ہیں ان سے پہلے ان لوگوں کا کیا حال ہوا۔ جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے بے خوف ہوئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب نے انھیں ملیا میٹ کردیا۔ ان کے بعد آنے والوں کی بصیرت تو یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے سے پہلے لوگوں کی غلطیوں سے بچیں اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔ جن کے واقعات اللہ تعالیٰ نے اس لیے بار بار اور کھول کھول کر بیان کیے تاکہ نئی نسل اپنے سے پہلے لوگوں کے انجام سے عبرت حاصل کرے۔ لیکن ایسا کم ہوتا ہے کہ بعد کے لوگ اپنی اصلاح اور فلاح کی طرف توجہ کریں بلکہ یہ لوگ وہی کام کرتے ہیں جو پہلے لوگوں کی تباہی کا سبب ہوتے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب ان کے پاس انبیاء کرام (علیہ السلام) دلائل کے ساتھ تشریف لائے اور انھوں نے ایمان باللہ اور اپنی اطاعت کا حکم دیا تو لوگوں نے انھیں جھٹلایا اور پھر اپنی ضد پر پکے ہوگئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر ثبت کردی اور پھر وہ کفر کی حالت میں ہی ہلاک ہوئے۔ یہاں پہلے لوگوں کی ضد اور ان کے انجام کا ذکر کرنے کے بعد توجہ دلائی ہے کہ ان کے وارث بننے والوں کو یہ راہ اختیار نہیں کرنی چاہیے اگر یہ بھی یہی راہ اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر بھی مہرثبت کر دے گا۔ پھر یہ ہوگا کہ یہ حق بات سننے اور نگاہ عبرت سے محروم ہوجائیں گے۔ یہ بات پہلے بھی بیان کی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ ہدایت کسی پر مسلط نہ کی جائے گی۔ مہر کس طرح لگتی ہے : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَّسُوْلِ اللَّہِ (ﷺ) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْٓئَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ہُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَاد زیدَ فِیْہَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَہُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللَّہُ ﴿کَلاَّ بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾)[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن، باب وَمِنْ سُورَۃِ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ (حسن )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بلاشبہ جب بندہ گناہ کرتا ہے اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے جب وہ اس گناہ کو چھوڑتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ دوبارہ گناہ کرتا ہے تو اس سیاہ نکتے میں اضافہ کردیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی سیاہی دل پر غالب آجاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ نے کیا ہے ” کیوں نہیں ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ پڑچکا ہے۔“ مسائل : 1۔ پہلی اقوام سے نصیحت وعبرت پکڑنی چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو واضح دلائل کے ساتھ مبعوث فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : کن کے دلوں پر مہر ثبت ہوتی ہے : 1۔ کافروں کے دلوں پر مہر لگادی جاتی ہے۔ (البقرۃ:7) 2۔ مشرکوں کے دلوں پر مہرلگادی جاتی ہے۔ (الانعام :46) 3۔ اللہ کے علاوہ دوسرے کو معبود بنانے والوں کے دلوں پر مہر ثبت ہوتی ہے۔ (الجاثیۃ:23) 4۔ اللہ تعالیٰ پر افتراء بازی کرنے والوں کے دل پر مہر لگتی ہے۔ (الشوریٰ:24) 5۔ مرتد ہونے والے کے دل پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتا ہے۔ (المنافقون :3) 6۔ تکبر کرنے والے کے دل پر مہر لگائی جاتی ہے۔ (المومن :35) 7۔ جہاد سے پیچھے رہنے والوں کے دلوں پر مہر ثبت ہوتی ہے۔ (التوبۃ:93)