وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
اور اگر واقعی بستیوں والے ایمان لے آتے اور بچ کر چلتے تو ہم ضرور ان پر آسمان اور زمین سے بہت سی برکتیں کھول دیتے اور لیکن انھوں نے جھٹلایا تو ہم نے انھیں اس کی وجہ سے پکڑ لیا جو وہ کمایا کرتے تھے۔
فہم القرآن : ربط کلام : سرکشی اور بےدینی کی بنیاد پر ملنے والی فراوانی اور دین کی بدولت عطا ہونے والی خوشحالی کا فرق۔ اللہ تعالیٰ نے فرقان مجید کی سورۃ نساء کی آیت 115میں ایک اصول بیان فرمایا ہے کہ ہدایت واضح ہونے کے باوجود جو شخص ہمارے رسول کی مخالفت کرے گا ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ جانا چاہتا ہے۔ سورۃ الشوریٰ کی آیت 20میں فرمایا کہ جو دنیا چاہتے ہیں اسے اس کے نصیب کی دنیا دے دیتے ہیں۔ جو آخرت چاہتا ہے اسے آخرت عطا کردیتے ہیں۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ اگر لوگ ایمان اور تقویٰ کا راستہ اختیار کریں گے تو ہم ان کے لیے زمین و آسمان کی برکات کے دروازے کھول دیں گے۔ لیکن انسانوں کی اکثریت ہمیشہ اس طرح رہی ہے کہ وہ ایمان اور پرہیزگاری کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے من مانی اور خدا کی نافرمانی میں دنیا کی ترقی سمجھتے ہیں۔ جو اللہ کی ذات اور اس کی تعلیمات کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ جب لوگ نیکی کے بجائے برائی، حلال کی جگہ حرام، اور خدا کی اطاعت کے بجائے نافرمانی کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو پھر اکثر اوقات دنیا میں ہی انھیں اپنے کیے کی سزا مل جاتی ہے۔ یہاں اہل ایمان اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کو زمین و آسمان کی برکات کی خوشخبری دی گئی ہے۔ برکت کی جمع برکات ہے جب اللہ تعالیٰ کسی چیز میں برکت پیدا فرماتا ہے تو وہ چیز تعداد اور مقدار میں تھوڑی ہونے کے باوجود آدمی کو کفایت کر جاتی ہے۔ اور انسان اس پر مطمئن ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کی عمر میں برکت ڈال دی جائے تو وہ تھوڑی مدت میں وہ کار ہائے نمایاں سر انجام دے پاتا ہے کہ لوگ اس سے مدت تک استفادہ کرتے ہیں۔ خورد و نوش میں برکت ڈال دی جائے تو آدمی کے لیے پانی کے چند گھونٹ اور خوراک کے چند لقمے ہی کافی ہوتے ہیں۔ لیکن جب برکت اٹھالی جائے تو پیٹ بھر کھانے کے باوجود طبیعت سیر نہیں ہوتی اور انواع و اقسام کے کھانے بھی اس کی قوت و توانائی میں اضافہ نہیں کرتے۔ جب برکت اٹھ جاتی ہے تو بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ گھر میں سب کچھ ہونے کے باوجود نہ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اور ہر نعمت میسر ہونے کے باوجود انسان اس سے اس لیے استفادہ نہیں کرسکتا کہ وہ چیزیں استعمال کرنے سے اس کی صحت مزید بگڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے گویا کہ کسی چیز سے برکت اٹھالی جائے تو انسان اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آج دنیا کی غالب اکثریت اسی حالت سے دو چار ہے۔ کھیت سرسبز و شاداب، فیکٹریاں دن رات ٹھک ٹھک چل رہی ہیں، ذرائع مواصلات پہلے سے کہیں زیادہ اور ہر چیز کی فراوانی ہے لیکن انسان روحانی اور جسمانی اعتبار سے اپنے ہی آپ میں کھویا ہوا، مضطرب اور پریشان دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے سرور دوعالم (ﷺ) کھانا کھانے کے بعد اور مختلف مواقعوں پر اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمایا کرتے تھے۔ ” مگر جو شخص ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر اور راہ اختیار کرے تو ہم اسے ادھر پھیر دیتے ہیں جدھر کا اس نے رخ کیا ہے، پھر ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے۔ [ النساء :115] ” جو شخص آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کی کھیتی بڑھا دیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے اس میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔“ [ الشوری :20] ” حضرت عبداللہ بن بسر (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (ﷺ) میرے والد کے پاس آئے تو ہم نے آپ کو کھانا پیش کیا۔ آپ نے کھانا کھایا پھر آپ کو کھجوریں پیش کیں۔ آپ کھجوریں کھا کر گٹھلیاں اپنی دونوں انگلیوں کے درمیان رکھتے جاتے ہیں۔ شعبہ کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ اگر اللہ نے چاہا تو وہ بالکل درست ہے آپ (ﷺ) دونوں انگلیوں کے درمیان گٹھلیاں رکھ کر پھینکتے جاتے، پھر آپ کو پانی دیا گیا۔ تو آپ نے نوش فرمایا پھر برتن دائیں جانب بیٹھے شخص کے حوالے کیا میرے والد نے آپ کی سواری کی لگام پکڑی ہوئی تھی انہوں نے کہا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا اے اللہ! ان کے رزق میں برکت فرما اے اللہ! ان کے گناہ معاف فرما اور ان پر رحم فرما۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ رَأَی النَّبِیُّ (ﷺ) عَلٰی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ (رض) أَثَرَ صُفْرَۃٍ فَقَالَ مَہْیَمْ أَوْ مَہْ قَالَ قَالَ تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً عَلٰی وَزْنِ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ فَقَالَ بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ) [ رواہ البخاری ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے عبدالرحمن بن عوف (رض) پر زرد رنگ کے کچھ اثرات دیکھے آپ نے استفسار فرمایا یہ کیا ہے؟ حضرت عبدالرحمن نے کہا میں نے سونے کی ایک ڈلی مہر کے عوض ایک عورت سے نکاح کیا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ تیرے لیے بابرکت بنائے ولیمہ کرو خواہ ایک ہی بکری سے کرو۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَال قالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) إِذَا أَکَلَ أَحَدُکُمْ طَعَامًا فَلْیَقُلْ اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فیہِ وَأَطْعِمْنَا خَیْرًا مِّنْہُ وَإِذَا سُقِیَ لَبَنًا فَلْیَقُلْ اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فیہِ وَزِدْنَا مِنْہُ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب الأشربۃ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو کہے اے اللہ ہمارے لیے اس کھانے میں برکت ڈال دے اور ہمیں اس سے بہتر کھانا کھلا اور جب دودھ پیے تو کہے اے اللہ! ہمارے لیے اس میں برکت ڈال دے اور ہمیں اس سے زیادہ عنایت فرما۔“ مسائل : 1۔ تقویٰ اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ برکات کے دروازے کھول دیتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنا اس کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔