قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ
اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے کہا جو بڑے بنے ہوئے تھے، اے شعیب! ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ہمراہ ایمان لائے ہیں، اپنی بستی سے ضرور ہی نکال دیں گے، یا ہر صورت تم ہمارے دین میں واپس آؤ گے۔ اس نے کہا اور کیا اگرچہ ہم ناپسند کرنے والے ہوں؟
فہم القرآن : (آیت 88 سے 93) ربط کلام : حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان کشمکش کا ذکر جاری ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی موت تک قوم کو سمجھاتے رہے لیکن قوم نے نہ صرف ان کی باتوں کی طرف توجہ نہ دی بلکہ انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور اور کہنے لگے اے شعیب اب تیرے اور تیرے ساتھیوں کے لیے ایک ہی راستہ ہے اگر تم اپنی بات پر قائم رہنا چاہتے ہو تو اپنا کاروبار اور گھر بار ہمارے حوالے کرو اور یہاں سے نکل جاؤ۔ اگر تم اپنا کاروبار اور گھر بچانا چاہتے ہو تو پھر تمھیں ہر صورت ہمارے عقیدے کو ماننا پڑے گا۔ اس کے سوا ہمارا اور تمہارا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کیا ہم کفر و شرک اور بددیانتی سے نفرت کرتے ہیں تب بھی اسے قبول کرلیں؟ ان کے فرمان کا مطلب یہ تھا کہ ایک طرف ہم ان باتوں کے خلاف نفرت کرتے ہوئے مہم چلارہے ہیں اور دوسری طرف خوف یا لالچ کی بنا پر انہیں قبول کرلیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دین چھوڑ کر دوبارہ کفر و شرک اختیار کرلیں۔ ایسا کرناہماری طرف سے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ ہم کہتے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کفر و شرک، خیانت اور بدیانتی کرنے سے منع کیا اور ان کے خلاف جدوجہد کرنے کا حکم دیا۔ ہاں جو اللہ چاہے وہ ہوجاتا ہے مومنوں کے فرمان کے دو مقصد ہو سکتے ہیں۔ پہلا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ہرگز نہیں چاہتا کہ انسان کفر و شرک، خیانت اور بد دیانتی کا راستہ اختیار کرے اس کا حکم تو وہی ہے۔ جو حضرت شعیب (علیہ السلام) اور تمام انبیاء ( علیہ السلام) دیتے آ رہے ہیں لہٰذا ہمیں سب کچھ منظور ہے لیکن صراط مستقیم سے ہٹنا گوارا نہیں۔ دوسرا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ ایمان پر قائم رہنا اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا ہم اپنے رب سے استقامت کی توفیق مانگتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے عاجزی اختیار کرتے ہوئے اپنی قوم کی یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ایمان لانا اور اس پر استقامت اختیار کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ یہ ہمارے رب کی توفیق کا نتیجہ ہے جس پر ہم تا دم آخر قائم ہیں۔ گویا کہ انہوں نے ان شاء اللہ کے مفہوم میں یہ الفاظ ادا فرمائے تھے۔ اسی لیے انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہمارے انجام کا ٹھیک ٹھیک علم تو ہمارے رب کے پاس ہے۔ ہمارا بھروسہ اسی پر ہے۔ ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اے ہمارے رب ظالموں کا ظلم حد سے بڑھ چکا ہے اس سے ہمارے اور ہمارے دشمنوں کے درمیان بہتر فیصلہ صادر فرما تو ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ قوم شعیب اور کفارکا ابتدا ہی سے وطیرہ رہا ہے کہ ایک طرف ایمان والوں پر مظالم ڈھاتے ہیں اور دوسری طرف باقی لوگوں کے لیے ہدایت کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں تاکہ مزید لوگ حلقۂ دین میں داخل نہ ہوسکیں۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں نے بھی یہی گھناؤنا کردار اختیار کر رکھا تھا۔ وہ اپنی قوم کو کہتے کہ اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو یاد رکھو بھاری نقصان اٹھاؤ گے تمھارا برا حشر ہوگا۔ سرداروں کے پروپیگنڈے کا یہ معنٰی بھی تھا کہ اگر تم شعیب کا حکم مانو گے تو تم اپنی مرضی سے کاروبار نہیں کرسکو گے۔ جس سے تمھاری تجارت اور ترقی کو زبردست نقصان پہنچے گا۔ یاد رہے کہ دنیا دار لوگ شروع ہی سے ایسی باتوں سے عوام کو دین سے روکتے رہے ہیں۔ اور آج بھی نفاذ اسلام کی بات چلے تو ایسا ہی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ قوم شعیب کے کردار اور ان کے بار بار عذاب کے مطالبہ پر رات کے وقت ایسا زلزلہ آیا کہ وہ صبح اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ وسیع ترین کاروبار، بڑے بڑے حفاظتی منصوبے اور ہر قسم کے مکرو فریب انھیں رب ذوالجلال کے عذاب سے نہ بچا سکے جو لیڈرز قوم کو یہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ شعیب (علیہ السلام) کی پیروی کرنے میں نقصان ہوگا۔ وہی ملک و ملت کی تباہی کا باعث بنے۔ اس المناک صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے میری قوم میں نے سمجھانے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی۔ جو عذاب لانے کا تم مجھ سے اصرار کرتے تھے اس نے تمھیں آلیا اب تم نے اپنے کیے کا پھل پا لیا ہے۔ لہٰذا میں تم پر کیونکر افسوس کرسکتا ہوں۔