وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ
اور جو شہر پاکیزہ ہے اس کی کھیتی اس کے رب کے حکم سے نکلتی ہے اور جو خراب ہے (اس کی کھیتی) ناقص کے سوا نہیں نکلتی۔ اس طرح ہم آیات کو ان لوگوں کے لیے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں جو شکر کرتے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : بارش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے نباتات کا ظہور اور نمود ہوتا ہے بارش تو ہر کسی کے لیے یکساں ہوتی ہے مگر اس کے اثرات اور نتائج مختلف ہوتے ہیں زمین چٹیل اور بنجر ہوگی تو اس سے کسی چیز کا اخراج نہیں ہوگا۔ اگر زمین زرخیز اور ہموار ہوگی تو نہ صرف وہ زمین ٹھنڈی ہوگی بلکہ اس سے مختلف قسم کی فصلیں اور پودہ جات پیدا ہوں گے۔ زمین شوریلی ہوگی تو اس سے مزید کلر شور ابھر کر سامنے آئے گا۔ اس پر کھڑے ہوئے پانی میں تعفن کے سوا کچھ پیدا نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ارشادات کو مختلف انداز میں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ شکر ادا کریں۔ بظاہر یہ بارش اور زمین کی مثال ہے لیکن حقیقت میں اس کا تعلق دین کے ساتھ ہے کیونکہ سورۃ البقرہ کی آیت 17اور 18میں دین اور بارش کو مترادف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ جس طرح بارش سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح عقیدہ توحید اپنانے اور دین اسلام کو اختیار کرنے سے مسلمان کی روحانی زندگی میں بہار ہوتی ہے۔ اس کے ذوق وشوق میں اضافہ اور نیکی کے عمل میں ترقی ہوتی ہے۔ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ (رض) عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِذَا اسْتَسْقَی قَال اللَّہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہَائِمَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ) [ رواہ ابو داؤدد : باب رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِی الاِسْتِسْقَاءِ] ” حضرت عمرو بن شعیب (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) جب بارش کے لیے دعا کرتے تو فرماتے اللّٰہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہِیمَتَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ ” اے اللہ اپنے بندوں اور جانوروں کو بارش کے ذریعے پانی پلا اور اپنی رحمت کو پھیلاتے ہوئے مردہ زمین کو زندہ کردے“