ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خفیہ طور پر پکارو، بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
فہم القرآن : ( آیت 55 سے 56) ربط کلام : جب زمین و آسمانوں کا خالق، رات اور دن، شمس و قمر اور ہر چیز کا مالک وہی ہے اور ہر چیز پر اسی کا حکم چلتا ہے۔ تو کسی دوسرے کے سامنے دست سوال دراز کرنے کا کیا معنٰی ؟ لہٰذا حقیقی خالق اور بااختیار مالک سے مانگا کیجیے اس سے نہ مانگنا اور غیروں سے مانگنا اللہ تعالیٰ کی بغاوت ہے جس سے ساری زمین کا نظام بگڑتا ہے۔ دعا کے آداب میں شکرو حمد، درود اور توبہ استغفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جلالت ومنزلت کا تقاضا اور فقیر کی شان یہ ہے کہ مانگتے وقت غایت درجے کی انکساری اور در ما ندگی کا اظہار کرتے ہوئے اسکے سامنے دست سوال دراز کرنا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ (رض) نے لکھا ہے کہ دعا مانگنے والا اس بے بسی اور بے چارگی کا اظہار کرے جس طرح مردہ غساّل کے ہاتھ میں ہو۔ (رُوْحُ الدُّعَاءِ اَنْ یَّرَیٰ کُلَّ حَوْلٍ وَقُوَّۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَیَصِیْرُ کَا لْمَیِّتِ فِیْ یَدِ الْغُسَّالِ) [ حجۃ اللّٰہ] ” دعا کی روح یہ ہے کہ دعا کرنے والا ہر قسم کی طاقت وقوت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تصور کرے اور اس کی قوت وعظمت کے سامنے اپنے آپ کو اس طرح بے بس سمجھے جس طرح نہلانے والے کے ہاتھوں میت ہوتی ہے۔“ اللہ تعالیٰ کو انکساری اس قدر پسند ہے کہ جب انسان پریشانیوں کے ہجوم، مسائل کے گرداب اور مصائب کے طوفانوں میں پھنس جاتا ہے۔ عزیز واقربا، دوست واحباب منہ پھیر چکے ہوتے ہیں، لوگوں کی بے وفائی کے جھٹکوں اور حالات و واردات کے تھپیڑوں نے اسے زمین کی پستیوں پر دے مارا ہوتا ہے تمام وابستگیاں ختم اور ہر قسم کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔ اب نہ اٹھنے کی ہمت ہے اور نہ بیٹھنے کی سکت ہر دم بستر کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ جسمانی طور پر اس قدر کمزوری کا عالم! کہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ ہاتھ اٹھانا چاہتا ہے مگر ہمت اور طاقت ختم ہوچکی ہے۔ کیونکہبیماری اور غم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا۔ معذور یاں، مجبوریاں : ان مجبوریوں اور معذوریوں میں ایک آواز اس کے کانوں کو مس کرتی ہے۔ آواز میں یہ تحریک اور امید دلائی جارہی ہے کہ میرے کمزور، ناتواں اور گناہ گار بندے تجھے اپنی درماندگیوں، لاچاریوں اور کمزوریوں پر نگاہ رکھنے کی بجائے میری رحمت پر امید رکھنی چاہئے کیونکہ میرے بغیر کوئی چارہ گر اور تیرا پر سان حال اور تیری غلطیاں معاف کرنے والا نہیں۔ امید کی اس پکار نے اس کے کمزور جسم میں طاقت، ناتواں ہاتھوں میں سکت اور شکستہ دل میں ایک امیدپیدا کردی ہے۔ وہ کانپتے وجود، لرزتے ہاتھوں کو اس کی بارگاہ اقدس میں پھیلا دیتا ہے۔ اس کی زبان سے نہایت نحیف آواز نکلتی ہے کہ اے رحیم وکریم مالک میں ہر طرف سے ٹھکرایا ہوا اور ہر جانب سے بے آسرا ہو کر تیری بارگاہ پاک میں اپنادامن حاجت پھیلا رہا ہوں۔ تو میری فریاد قبول فرما۔ میں تیرے در کا محتاج اور تیری رحمت کا طلب گارہوں اس کے جواب میں آواز آتی ہے : (قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا إِنَّہُ ھُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ) [ الزمر :53] ”(اے نبی) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ وہ تو غفورالرحیم ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کو عاجزی اور انکساری کے ساتھ پکارنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ سے خوف اور امید کے ساتھ مانگنا چاہیے۔ 3۔ اللہ سے نہ مانگنے والے فسادی لوگ ہیں۔ 4۔ اللہ کی رحمت اس کے نیک بندوں کے قریب تر ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کی رحمت : 1۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اللہ گناہوں کو بخشنے والا ہے۔ (الزمر :53) 2۔ اللہ کی رحمت دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہے۔ (الزخرف :32) 3۔ اللہ کی رحمت نیکو کاروں کے قریب ہوتی ہے۔ (الاعراف :56) 4۔ اللہ کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (الحجر :56)