إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
بے شک تمھارا رب اللہ ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا، رات کو دن پر اوڑھا دیتا ہے، جو تیز چلتا ہوا اس کے پیچھے چلا آتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے (پیدا کیے) اس حال میں کہ اس کے حکم سے تابع کیے ہوئے ہیں، سن لو! پیدا کرنا اور حکم دینا اسی کا کام ہے، بہت برکت والا ہے اللہ جو سارے جہانوں کا رب ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : مشرک جن کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی سمجھتے ہیں۔ ان کا کائنات کی تخلیق اور اس کے چلانے میں کوئی عمل دخل نہیں پھر وہ کس بنیاد پر سفارش کریں گے؟ قرآن کریم نے مادی کائنات کے آغاز و انجام کا ایک خاص تصور دیا ہے۔ یہ تصور ڈیڑھ سو برس پہلے تک انسان کے لیے بالکل نامعلوم تھا۔ یقیناً نزول قرآن کے زمانے میں تو اس کا شاید تصور بھی کسی انسان کے لیے محال تھا۔ مگر جدید کائنات کے علم نے حیرت انگیز (کسی مسلمان کے لیے تو یہ بالکل حیرت انگیز نہیں ہے۔ ہاں غیر مسلموں کے لیے ضرور ہوسکتا ہے) طور پر اس کی تصدیق کی ہے۔ قرآن کریم میں مظاہر فطرت، تخلیق اور دیگر اہم موضوعات کا تذکرہ ایک مسلسل اور مربوط انداز کی بجائے پورے قرآن میں پھیلا ہوا۔ جس کا مقصد موقعہ محل کے مطابق اس سے اللہ کی توحید کا استدلال کرنا ہے۔ چنانچہ متعدد سورتوں میں پھیلے ہوئے اجزا کو یکجا کرکے ہم تخلیق کائنات اور سماوات وارض کے مختلف ارتقائی مراحل کا قرآنی تصور حاصل کرکے جدید سائنسی تحقیقات سے ان کا موازنہ کرسکتے ہیں۔ ان آیات سے تخلیق کے چند نکات بالکل واضح ہیں۔ 1۔ عام تخلیق کے لیے چھ ادوار کا ہونا۔ (جن کا دورانیہ اربوں کھربوں سالوں پر محیط ہے، صحیح علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔) 2۔ آسمان اور زمین کے وجود کا آپس میں جڑا ہونا۔ 3۔ کائنات کی تخلیق ابتدائی نوعیت کے ایسے مادے سے جو ایک بڑے تودے کی شکل میں تھا اور بالآخر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ 4۔ آسمانوں اور زمینوں کے درمیان مخلوق کی تخلیق۔ 5۔ آسمانوں اور زمینوں کا مقررہ وقت پر طے شدہ وقت کے مطابق و خاتمہ۔ تشکیل کائنات سے متعلق چند جدید سائنسی معلومات : کائنات کی ابتداء : Big Bang Teory انیسویں صدی کے نصف اول میں چند علماء یورپ کا یہ خیال تھا کہ شاید کائنات ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ لیکن جدید سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی ایک ابتدا ہے اور اس کا ایک انجام بھی مقدر ہے۔ جدید طبیعات کا ایک قانون (Second law of the rmodynamics) ” احرکیات حرارت کا دوسرا قانون“ ہے۔ اس کا ایک ضمنی قانون جسے ” ضابطۂ ناکارگی“ (Law of enterophy) کہا جاتا ہے۔ ثابت کرتا ہے کہ کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں ہو سکتی۔ یہ قانون بتاتا ہے کہ حرارت، مسلسل، باحرارت وجود سے بے حرارت وجود میں منتقل ہوتی رہتی ہے مگر اس چکر کو الٹا نہیں چلایا جا سکتا کہ خود بخود حرارت، کم حرارت والے جسم سے زیادہ حرارت والے جسم میں منتقل ہونے لگے۔ ناکارگی دستیاب توانائی (Available Energy) اور غیر دستیاب توانائی (Unavailable Energy) کے درمیان تناسب کا نام ہے اور اسی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ کائنات کی ناکارگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اور ایک وقت ایسا آنا مقدر ہے جب تمام موجودات کی حرارت یکساں ہوجائے گی اور کوئی کار آمد توانائی باقی نہیں رہے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کیمیائی اور طبعی عمل کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اور زندگی بھی اس کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گی۔ لیکن اس حقیقت کے پیش نظر کہ کیمیائی اور طبعی عمل جاری اور زندگی کے ہنگامے قائم ہیں یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ کائنات ازل سے موجود نہیں۔ وگرنہ اخراج حرارت کے لازمی قانون کی وجہ سے اس کی توانائی کبھی کی ختم ہوچکی ہوتی اور یہاں زندگی کی ہلکی سی رمق بھی موجود نہ ہوتی۔ اسی جدید تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے ایک امریکی عالم حیوانات ( Edward Futher Kesel) لکھتا ہے : ” اس طرح غیر ارادی طور پر سائنس کی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ کائنات اپنا ایک آغاز (Beginning) رکھتی ہے۔ اور ایسا کرتے ہوئے اس نے خدا کی صداقت کو ثابت کردیا ہے۔ کیونکہ جو چیز اپنا آغاز رکھتی ہو وہ اپنے آپ شروع نہیں ہو سکتی۔ یقیناً وہ ایک محرک اول، ایک خالق، ایک خدا کی محتاج ہے۔“ (The evidence of God ,p51) چنانچہ کائنات کے وجود میں آنے کا مسلمہ جدید ترین نظریہ یہ ہے کہ ابتداً مادہ مرکوز اور مجتمع (Concentrated and Condensed) حالت میں تھا۔ ﴿أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ﴾[ سورۃ الأنبیاء :30] ” کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ارض و سماوات آپس میں گڈ مڈ تھے پھر ہم نے انھیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ (اللہ تعالیٰ کی خلاقی) پر ایمان نہیں لاتے ؟“ یہ مادہ بالکل توازن کی حالت میں تھا اس میں کسی قسم کی کوئی حرکت نہ تھی پھر اچانک یہ ایک عظیم دھماکہ (Big Bang) (یہ عظیم دھماکہ ایک اندازہ کے مطابق 15 کھرب سال پہلے ہوا) سے پھٹ پڑا اور اس نے ایک عظیم گیسی بادل یا قرآن کے لفظ میں دخان ﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ﴾ کی صورت اختیار کرلی۔ سائنس کی یہ دریافت قرآنی بیان کی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔ یہ گیسی بادل بہت عظیم الجثہ تھا اور آہستہ آہستہ گردش کر رہا تھا۔ یہ عظیم سدیم (Primery nebula) انجام کار متعدد ٹکڑوں میں بٹ گیا جن کی لمبائی چوڑائی اور مقدار مادہ بہت ہی زیادہ تھا۔ نجمی طبیعات (Astrophysicist) کے ماہرین اس کی مقدار کا اندازہ سورج کے موجودہ مادہ کے ایک ارب سے لگا کر ایک کھرب گنا تک لگاتے ہیں۔ ان اعداد سے ابتدائی گیسی مقدار مادہ (Hydrogen and Helium) کے ان ٹکڑوں کے عظیم جثوں کا کچھ تصور ملتا ہے جن سے بعد میں عمل انجماد (Condensation) کے ذریعے کہکشائیں وجود میں آئیں۔ وسعت کائنات : یہ کائنات جس کا ابھی تک انسان احاطہ نہیں کرسکا ہے اتنی وسیع ہے کہ اس کو تصور میں لانا ہی مشکل ہے اگر ساری دنیا کے ریگستانوں اور سمندروں کے کنارے پائی جانے والی ریت اکٹھی کرلی جائے تو ریت کے اس عظیم ڈھیر میں جتنی حیثیت، ریت کے ایک ذرّے کی ساری ریت کے مقابلے میں بنتی ہے کائنات کے مقابلے میں ہماری زمین کی شاید اتنی حیثیت بھی نہیں بنتی۔ اگر ہم ایک خیالی جہاز تصور کریں جو روشنی کی ہیبت ناک رفتار یعنی ایک لاکھ چھیا سی ہزار میل فی سیکنڈ (1,86,000 Miles/Sec) کی رفتار سے سفر کرسکتا ہو کائنات کے گرد گھومے تو اس ہوائی جہاز کو پورا چکر لگانے میں ایک ارب سال لگیں گے۔ پھر بھی ہمارا یہ فرضی جہاز کبھی کائنات کا چکر مکمل نہ کرسکے گا کیونکہ اتنی وسعت کے باوجود یہ کائنات ٹھہری ہوئی نہیں بلکہ غبارے کی طرح پھیل رہی ہے اور اس کے پھیلنے کی رفتار اتنی ہے کہ ہر 130 کروڑسال بعد کائنات کے تمام فاصلے دگنے ہوجاتے ہیں۔ کائنات کا یہ پھیلاؤ جدید سائنس کی سب سے مرعوب کن دریافت اور اب یہ ایک نہایت مستحکم تصور ہے اور بحث صرف اس بات پر مرکوز ہے کہ یہ امر کس طرح انجام پا رہا ہے۔ جبکہ قرآن نے 14,00 سال پہلے اس کا انکشاف کردیا تھا۔ ﴿وَالسَّمَاء بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ﴾[ سورۃ الذاریات :47] ” آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم ہی اس میں توسیع کر رہے ہیں۔“ نزول قرآن کے وقت کسی بھی شخص کے لیے ناممکن تھا کہ وہ وسعت کائنات کا مطالعہ و مشاہدہ کرسکتا ہو۔ چنانچہ سائنس کی یہ دریافت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قرآن خالق کائنات یعنی اللہ کا کلام ہے۔ نظام شمسی اور کہکشائیں : نظام شمسی ایک ایسے نظام کو کہتے ہیں جس کے مرکز میں ایک سیارہ ہو اور اس کے گرد مختلف سیارے اپنے اپنے مداروں میں چکر لگا رہے ہوں۔ چنانچہ کائنات کے جس نظام شمسی میں ہم رہتے ہیں اس کے مرکز میں سورج ہے اور اس کے گرد بشمول ہماری زمین ٩ سیارے چکر لگا رہے ہیں۔ صرف اس نظام کی وسعت کا یہ حال ہے کہ سورج کی (یاد رہے کہ روشنی 1,86,000 میل فی سیکنڈ کی تیز ترین رفتار سے سفر کرتی ہے) روشنی کو اپنے بعید ترین سیارے یعنی پلوٹو (Pluto) جو کہ اعداد میں دیکھیں تو سورج سے تین ارب سر سٹھ کروڑ بیس لاکھ میل (3,66,2000000) دور ہے، کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں اور پلوٹو سورج کے گرد ساڑھے سات ارب میل کے دائرے میں چکر لگا رہا ہے۔ ہماری زمین جو سورج سے ساڑھے نو کروڑ میل دور ہے اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتی ہے۔ سورج کے گرد انیس کروڑ میل کا دائرہ ہے جو ایک سال میں پورا ہوتا ہے۔ یہ تمام سیارے اپنے سفر میں اس طرح مصروف ہیں کہ ان کے گرد اکتیس چاند بھی اپنے اپنے سیاروں کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ان کے علاوہ تیس ہزار چھوٹے سیاروں (Asteroids) کا ایک حلقہ، ہزاروں دمدار ستارے (Comets) اور لاکھوں شہاب ثاقب ہیں جو اسی طرح گردش میں مصروف ہیں۔ ان سب کے درمیان میں سورج ہے جس کا قطر (Diameter) آٹھ لاکھ پینسٹھ ہزار میل ہے اور وہ زمین سے بارہ لاکھ گنا بڑا ہے، پھر یہ سورج خود بھی رکا ہوا نہیں۔ سورج کس طرح سفر کر رہا ہے ؟ کیلیفورنیا کی ایک رصد گاہ کے ڈائریکٹر آرجی ایٹکن کا اندازہ ہے کہ سورج اپنے نظام شمسی سمیت اپنی کہکشاں کے ساتھ چوبیس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کسی نامعلوم منزل کی طرف جا رہا ہے۔ جو جدید انکشاف کے مطابق سورج مجمع النجوم شلیاق کے مرکز جس کو Solar Apex ہا گیا ہے کی طرف جا رہا ہے۔ یہ دریافت بھی قرآن کی صداقت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے جیسا کہ قرآن نے چودہ صدیاں قبل ہی یہ اعلان کردیا تھا۔ ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیم﴾[ یس :38] ” اور سورج اپنی مقررہ گزر گاہ پر چل رہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔“ علمائے فلکیات کے ایک جدید اندازے کے مطابق ہر کہکشاں (Galaxy) میں دو کھرب ستارے ہیں اور اب تک معلوم کائنات میں تقریباً دو کھرب یہ کہکشائیں ہیں۔ جو کہکشاں ہم سے قریب ترین ہے وہاں سے روشنی کو ہم تک پہنچنے میں تقریباً نو لاکھ سال لگ جاتے ہیں۔ یہ کہکشاں مراۃ السلسلہ (Andromida) نامی مجمع النجوم میں واقع ہے۔ لہٰذا روشنی کو ان ستاروں سے جو معلوم سماوی جہاں کے اس سرے پر واقع ہیں ہم تک پہنچنے میں اربوں سال لگ جاتے ہیں۔ کائنات کی پہنائیاں اس قدر وسیع ہیں کہ ان کی پیمائش کے لیے خاص اکائیاں مثلاً نوری سال اور پارسک وغیرہ وضع کی گئیں ہیں۔ نوری سال یا سال نوای اس فاصلہ کو کہتے ہیں جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے اور یہ تقریباً 58 کھرب ستر ارب میل کے برابر ہوتا ہے اور پارسک 3.26 نوری سال یا ایک نیل 92 کھرب میل کے لگ بھگ ہے۔ ﴿فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ کائنات کی ان وسعتوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس حدیث میں ذرا بھی مبالغہ نہیں جس میں بتایا گیا ہے وہ آخری آدمی جسے اللہ تعالیٰ دوزخ سے نکال کر جنت میں بھیجے گا اور اسے وہ وسیع و عریض باغ دکھا کرکہا جائے گا یہ سب تمھارا ہے تو وہ حیران ہو کر کہے گا۔ ” یا اللہ تو اللہ ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے۔“ طرّہ پھر اس پہ یہ کہ یہ کہکشائیں بھی ٹھہری ہوئی نہیں ہیں بلکہ اپنے محور پر گردش کر رہی ہیں۔ چنانچہ وہ کہکشاں جس میں ہمارا نظام شمسی واقع ہے اس کا اپنے محور پر ایک دور 20 کروڑ سال میں پورا ہوتا ہے۔ یہ ساری حرکتیں اور گردشیں حیرت انگیز طور پر نہایت تنظیم اور باقاعدگی کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ نہ ان میں باہم کوئی ٹکراؤ ہوتا ہے اور نہ رفتار میں کوئی فرق پڑتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق Big Bang کے وقت اگر مادے کے پھیلنے کی رفتار میں ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے کے لاکھویں حصے جتنا بھی فرق پڑجاتا تو ساری کائنات آپس میں ٹکرا کر درہم برہم ہوجاتی ! (سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَان اللّٰہِ الْعَظِیْمِ) یہ نظام اس حدتک مربوط اور مستند (Accurate) ہے کہ ایک کہکشانی نظام جو اربوں متحرک ستاروں پر مشتمل ہوتا ہے دوسرے کہکشانی نظام میں حرکت کرتا ہوا داخل ہوتا ہے اور پھر اس سے نکل جاتا ہے مگر باہم کسی قسم کا ٹکراؤ پیدا نہیں ہوتا! اس عظیم اور حیرت انگیز نظام کو دیکھ کر انسانی عقل بے اختیار اعتراف کرتی ہے کہ کوئی تو ہے، زبردست، غیر معمولی طاقت اور علم والا جس نے اس اتھاہ نظام کو قائم کر رکھا ہے۔ یہاں پر یہ واقعہ باعث بصیرت و تقویت ایمان ہوگا جس کا تعلق مشہور ماہر فلکیات سر جیمز جینز (Sir James Jeans) England (1877-1946) سے ہے۔ موصوف مشہور کتاب (The Mysterious Universe) کے مصنف ہیں۔ اس واقعہ کو علامہ عنایت اللہ مشرقی نے بیان کیا ہے انھی کے الفاظ میں سنیے۔ ” 1909 کا ذکر ہے، اتوار کا دن تھا اور زور کی بارش ہو رہی تھی۔ میں کسی کام سے نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہور ماہر فلکیات سر جیمز جینز پر نظر پڑی جو بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جا رہے تھے۔ میں نے قریب ہو کر سلام کیا۔ انھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ دوبارہ سلام کیا تو متوجہ ہوئے اور کہنے لگے تم کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا دو باتیں۔ اول یہ کہ زور سے بارش ہو رہی ہے اور آپ نے چھتری بغل میں دبا رکھی ہے۔ سر جیمز جینز اپنی بد حواسی پر مسکرائے اور چھاتہ تان لیا۔ دوم یہ کہ آپ جیسا شہرہ آفاق آدمی گرجا میں عبادت کے لیے جا رہا ہے۔ یہ کیا ؟ میرے اس سوال پر پروفیسر جیمز جینز لمحہ بھر کے لیے رک گئے اور پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ ” آج شام کی چائے میرے ساتھ پیو“ چنانچہ شام کو میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچا۔ ٹھیک 4 بجے لیڈی جیمز باہر آکر کہنے لگیں : ” سر جیمز تمھارے منتظر ہیں“ اندر گیا تو ایک چھوٹی میز پر چائے لگی ہوئی تھی۔ پروفیسر صاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے۔ کہنے لگے : ” تمھاراسوال کیا تھا؟“ میرے بولنے کا انتظار کیے بغیر ہی اجرام فلکی کی تخلیق، ان کے حیرت انگیز نظام، بے انتہا پہنائیوں اور فاصلوں، ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں نیز باہمی کشش اور طوفان ہائے نور پر وہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرا دل اللہ کی اس داستان کبریا اور جبروت پر دہلنے لگا، اور ان کی اپنی کیفیت یہ تھی کہ سر کے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے۔ آنکھوں سے حیرت و خشیت کی دو گونہ کیفیتیں عیاں تھیں، اللہ کی ہیبت اور دانش سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی۔ فرمانے لگے، عنایت اللہ خاں! جب میں خدا کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری ہستی اللہ کے جلال سے لرزنے لگتی ہے اور جب میں کلیسا میں خدا کے سامنے سرنگوں ہو کر کہتا ہوں ” تو بہت بڑا ہے“ تو میری ہستی کا ذرہ ذرہ میرا ہم نوا بن جاتا ہے۔ مجھے بے حد خوشی اور سکون نصیب ہوتا ہے۔ مجھے دوسروں کی نسبت عبادت میں ہزار گنا زیادہ کیف ملتا ہے کہو عنایت اللہ خاں! تمھاری سمجھ میں آیا کہ میں گرجے کیوں جاتا ہوں ؟“ علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسر جیمزکی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام مچا دیا۔ میں نے کہا :” جناب والا آپ کی روح افروز تفصیلات سے میں بے حد متاثر ہوا ہوں۔ اس سلسلے میں قرآن پاک کی ایک آیت یاد آئی ہے اگر اجازت ہو تو پیش کروں۔“ فرمایا ضرور چنانچہ میں نے یہ آیت پڑھی۔ ﴿وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذَلِکَ إِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء إِنَّ اللّٰہَ عَزِیزٌ غَفُورٌ﴾[ سورۃ فاطر :28] ” اور اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشیوں کے لیے بھی رنگ مختلف ہیں بلاشبہ اللہ کے بندوں میں سے اس سے ڈرتے وہی ہیں جو علم رکھنے والے ہیں اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز پر غالب اور بخشنے والا ہے۔“ آیت سنتے ہی پروفیسر بولے ” کیا کہا! اللہ سے صرف اہل علم ڈرتے ہیں۔ حیرت انگیز، بہت عجیب، یہ بات جو مجھے ٥٠ برس کے مسلسل مطالعہ و مشاہدہ کے بعد معلوم ہوئی، محمد (ﷺ) کو کس نے بتائی۔ کیا قرآن میں واقعی ہی یہ آیت موجود ہے ؟ اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے۔ محمد (ﷺ) ان پڑھ تھے، انھیں یہ عظیم حقیقت خود بخود معلوم نہیں ہو سکتی۔ انھیں یقیناً اللہ نے بتائی تھی۔ بہت خوب بہت عجیب۔۔“ (بحوالہ : ” ماہنامہ نقوش“ ) مسائل : 1۔ جہانوں کا رب اللہ ہے جس نے چھ دن میں زمین و آسمانوں کو پیدا کیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق عرش کے اوپر متمکن ہے۔ 3۔ رات دن کو ڈھانپ لیتی ہے۔ 4۔ سورج، چاند، ستارے اللہ کے حکم کے تابع ہیں۔ 5۔ کائنات کو پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ 6۔ کائنات پر صرف اللہ کا حکم چلتا ہے جو تمام کائنات کا رب ہے۔