قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ فِي النَّارِ ۖ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا ۖ حَتَّىٰ إِذَا ادَّارَكُوا فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لِأُولَاهُمْ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ۖ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَٰكِن لَّا تَعْلَمُونَ
فرمائے گا ان جماعتوں کے ہمراہ جو جنوں اور انسانوں میں سے تم سے پہلے گزر چکی ہیں، آگ میں داخل ہوجاؤ۔ جب بھی کوئی جماعت داخل ہوگی اپنے ساتھ والی کو لعنت کرے گی، یہاں تک کہ جس وقت سب ایک دوسرے سے آملیں گے تو ان کی پچھلی جماعت اپنے سے پہلی جماعت کے متعلق کہے گی اے ہمارے رب! ان لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا، تو انھیں آگ کا دگنا عذاب دے۔ فرمائے گا سبھی کے لیے دگنا ہے اور لیکن تم نہیں جانتے۔
ف 3 یعنی جس عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے وہ اس صورت میں ال کتاب سے مراد قرآن ہے جیساکہ مترجم نے تصریح کردی ہے اور یہ ہوسکتا ہے کہ یہاں الکتاب سے مراد لوح محٖفوظ ہو یعنی جو سعادت وشقاوت اور رزق وعمر وغیرہ چیزیں اور ان کے لیے لوح محفوظ میں مقدر ہیں وہ ان کو حاصل ہو کر رہیں گی۔ اور ان کے ظلم وبدکار کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ان میں کوئی کی نہیں کریگا شاید یہ توبہ کرلیں اور اپنے گناہوں سے باز آجائیں یہ معنی یہ آیت کے مابعد سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں کیونکہ جعی اذا جائ تھم رسلنا یتوفو نھم میں ان کے فوت ہونے کو اس نصیب کے حصول کے لے غایت قرار دیا ہے اور یہ جبھی ہوسکتا ہے کہ یہ عمرورزق اور سعادت و سقادت ہی ہو سکتے ہیں، ( کبیر) ف 4 اس میں بھی کفار کی حالت کا بیان ہے اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام کفار ایک ساتھ جہنم میں نہیں جائیں گے بلکہ ان میں سابق اور مسبوق ہوں گے (رازی) اور اپنی بہن پر لعنت کرے گی یعنی اپنی پہلی ہم مذہب امت پر جو اس سے پہلے جہنم میں داخل ہوچکی ہوگی، مثلا یہودی دوسرے دوسرے یہود پر اور نصاریٰ دوسرے نصاری پر اور مشرکین دوسرے مشرکین پر ( وحیدی) ف 5 یعنی جہنم میں بعد میں داخل ہونے والے پہلے داخل ہونے والوں کے بارے میں یا پیروی کرنے والے میں کہیں گے ( رازی) ف 6 یعنی ہم تو اپنے متقد میں کی تقلید میں یا انہی کی باتوں پر ایمان لاکر شرک وبدعت اور منکر رات ی راہ پر چلتے رہے۔ ف 7 کہ ہر ایک عذاب کس قسم ہوگا، اور جہنم کا عذاب چونکہ مسلسل اروغیر منتہی ہوگا اور ایک درد کے بعد دوسرا درد شروع ہوجائے گا اس اعتبار سے اسے ضعٖ ( دوگنا) فرمایا ہے ورنہ یہ معنی نہیں کہ گناہ کے استحقاق سے بڑھ ر ہو گ، (کبیر )