قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
تو کہہ کس نے حرام کی اللہ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں؟ کہہ دے یہ چیزیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں (بھی) ہیں، جبکہ قیامت کے دن (ان کے لیے) خالص ہوں گی، اسی طرح ہم آیات کو ان لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتے ہیں جو جانتے ہیں۔
ف 6 اس آیت میں زبتہ اللہ سے عمدہ لباس اور تمام وہ چیزیں مراد ہیں جن سے انسان کو تجمل حاصل ہو سکتا ہے اور الطیبات سے عمدہ قسم کے لذیذکھانے مراد ہیں جن کو شریعت نے حرام قرارنہ دیاہو مطلب یہ ہے کہ خوش پوشی اور عمدہ قسم کے صحت بخش کھانے اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرائے ہو اس آیت میں ان لوگوں کی سخت تر دید ہے جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے ترک استعمال کو درویشی سمجھتے ہیں اور گھٹیا قسم کا کھانا کھانے ارولباس پہننے ہی کو بڑ ی نیکی خیال کرتے ہیں حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کو کوئی نعمت عطا فرماتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا اثر اس پر ظاہرہو۔ ( نسائی، ابن ماجہ) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں یعنی جو نعمت ہے مسلمان کو واسطے پیداہوئی ہے میں کافر بھی شریک ہوگئے آخرت میں صرف انہوں کو کے لیے) ہے مزید دیکھئے سورۃ احقاف آیت 20 ( قرطبی، ابن کثیر )