وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُم بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ
اور وہ شخص کہ اس کے پلڑے ہلکے ہوگئے تو یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا، اس لیے کہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ناانصافی کرتے تھے۔
ف 1 کثر مفسرین (رح) کے نزدیک اس سے مراد کافر ہے کیونکہ قرآن نے ان کو خسر واانفسھم قرار دیا ہے۔ مومن گنہگار تو آخر کار کسی نہ کسی طرح اللہ تعالیٰ کے جوار رحمت میں پہنچ جائیں گے (کبیر) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کے ایک شخص کو قیامت کے روز سب کے سامنے لایا جائے گا اس کے ننانوے اعمال پھیلائے جائیں گے اور ان میں سے ہر اک اتنا لمبا ہوگا جتنی دور نگاہ جاتی ہے۔ پھر پروردگار اس سے دریافت فرمائے گا کیا تم ان میں م سے کسی عمل سے انکار کرتے ہو َ وہ عرض کرے گا نہیں پھر پروردگار فرمائے گا تمہاری ایک نیکی بھی ہمارے پاس ہے اور اآج تم سے کوئی نے انصافی نہیں کی جائے گی پھر ایک بطاقہ (کاغذ کا ٹکڑا) لایا جائے گا جس میں اشھد ان لا الہٰ اللہ واشھد ان محمد اعبدہ ورسو لہ درج ہوگا وہ عرح کرے گا بھلا یہ ایک پر زہ ان تمام دفتروں کے مقابلے میں کس کام آئے گاَ حکم ہوگا تم پر کئی ظلم نہ ہوگا لہذا صبر کرو پھر وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور یہ کاغذ کا پرزہ درسرے پلڑے میں لیکن اس پرزے کا پلڑا بھاری رہے گا اور دفتروں کا پلڑا ہلکا (ابن کثیر )