مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
جو شخص نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے اس جیسی دس نیکیاں ہوں گی اور جو برائی لے کر آئے گا سو اسے جزا نہیں دی جائے گی، مگر اسی کی مثل اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
ف 6 یہاں حسنہ او سیئہ عام ہیں جو ہر قسم کی نیکی اور برائی کو شامل ہیں اور یہاں عشر امثال (دس گنا بدلہ) سے مقصد تحدید نہیں ہے بلکہ کئی دس گنے ہو سکتے ہیں جیساکہ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ ساتھ گنا تک اور اس سے بھی زیادہ ثواب ملتا ہے۔ جیساکہ سورۃ بقرہ آیت 245، میں گزر چکا ہے۔ (رازی) ف 7 بشر طیکہ دنیا میں توبہ نہ کرلی ہو اگر توبہ کرے یا اس کی نیکیاں برائیوں سے زیادہ ہوں یا اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے معاف فرمادے تو یہ سزا بھی نہیں ملے گی، حدیث میں ہے کہ اگر کوئی شخص نیکی کا قصد کرے اور عمل نہ کرے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اگر اور اگر برائی کا قصد کرے اور برائی نہ کرے تو اس کا گناہ نہیں لکھا جاتا، (مسلم۔ ابن ماجہ بردیت انس بن مالک) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ترک سیئہ تین قسم کا ہے اول یہ کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر برایہ کاترک کرے یہ چونکہ عمل اور نیت سے اس لیے اسے ایک نیکی کا ثواب ملے گا جیساکہ الصحیح کے بعض الفاظ میں ہے فانما تر کھا من جزانی کہ اس نے مجھے سے ڈر کر برائی کر ترک کیا دوم یہ کہ نسیان اور ذہول کی وجہ سے برای نہ کرسکے اس صورت میں نہ تو اس پر گناہ ہوگا اور نہ کچھ ثواب ہی ملے گا تیسرے یہ کہ باوجود کو شش کے برائی نہ کرسکے ایسی برائی کا اس پرگنا ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے جب دو مسلمان تلوار سے ایک دوسرے کو قتل کر نیکی کو شش کرتے ہیں قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے لوگوں نے سوال کیا مقتول کا کیا گناہ ہے فرمایا کہ وہ بھی دوسرے کو قتل کرنے کو شش میں تھا۔ ( ابن کثیر) بعض سلف نے یہاں نیکی سے مراد توحید کا اقرار اور اور برائی سے مراد شرک لیا ہے و اللہ اعلم ( قرطبی ،)