هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ۗ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ۗ قُلِ انتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ
وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں، یا تیرا رب آئے، یا تیرے رب کی کوئی نشانی آئے، جس دن تیرے رب کی کوئی نشانی آئے گی کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا، یا اپنے ایمان میں کوئی نیکی نہ کمائی تھی۔ کہہ دے انتظار کرو، بے شک ہم (بھی) منتظر ہیں۔
ف1 یعنی ان تین چیزوں میں سے کسی ایک کے منتظر ہیں اور ان آیات سے مراد علامات قیامت ہیں اور وہ احادیث میں بکثرت مذکور ہیں مگر دس علامات وہ ہیں جو حذیفہ (رض) سے صحت کے ساتھ ثابت ہیں۔ (روح) جامع البیان میں ہے’’ یعنی وہ نشان جوان کو ایمان لانے پر مجبور کردیں مگر جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں بعض آیات سے خاص کر سورج کا مغرب سے طلوع ہونا مراد ہے۔( کذافی المو ضح) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ اس جملہ کی آنحضرت (ﷺ) نے یہی تفسیر فرمائی ہے۔ اور حضرت ابو ہر یرہ (رض) کی ایک روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا: قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوجاتا اور جب وہ طلوع ہوگا اور لوگ دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گےمگر اس وقت ایمان لانا کسی کو فائدہ نہ دیگا پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت فرمائی بلکہ یہ تعیین متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ (کذافی الروح وابن کثیر بحوالہ صحیحین) ف2 اس کا عطف ءَامَنَتۡ پر ہے یعنی ایمان کی عدم قبولیت کے لیے ان دونوں چیزوں کا عدم شرط ہے جس سے مفہوما یہ ثابت ہوتا ہے کہ نفع کے لیے منع المخلو کے طور پر ایک چیز کا تحقق ہی کافی ہے یعنی جب سورج مغرب سے طلوع ہوچکے گا تو اس کے بعد اس شخص کا ایمان قبول نہ ہوگا جو پہلے نہ ایمان لایا اور انہ اس نے معاصی سے تائب ہو کر کارِ خیر ہی کیا کیونکہ اس وقت ایسے شخص کا ایمان لانا یا عمل کرنا اپنے ارادہ اختیار سے نہ ہوگا بلکہ محض مجبوری کی بنا پر ہوگا کالا یمان عند الغرغرۃ اور کوئی ایمان یاعمل اسی وقت معتبر ہوتا ہے جب وہ ارادہ یا اختیار سے ہو الغرض یہاں نفی عموم ہے عموم نفی نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا ’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ جب وہ ظاہر ہوجائیں گی تو کسی ایسے شخص کو جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا، ایمان لانا اسے کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے گا سورج کا مغرب سے طلو ع ہونا ،دجال اور دبۃ الارض کا ظہور، مگر صحیح یہ ہے کہ اس سے صرف طلوع شمس من المغرب ہی مراد ہو، حافظ ابن حجر (رض) نے فتح الباری میں نقل کیا ہے کہ طلوع شمس والی علامت کے ظہور کے بعد لوگ ایک سو بیس سال تک باقی رہیں گے۔ طلوع شمس میں مغرب کی کیفیت احادیث میں مذکور ہے، ( روح المعانی )