وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا، اے جنوں کی جماعت! بلاشبہ تم نے بہت سے انسانوں کو اپنا بنا لیا، اور انسانوں میں سے ان کے دوست کہیں گے اے ہمارے رب! ہمارے بعض نے بعض سے فائدہ اٹھایا اور ہم اپنے اس وقت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا۔ فرمائے گا آگ ہی تمھارا ٹھکانا ہے، اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو مگر جو اللہ چاہے۔ بے شک تیرا رب کمال حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
ف 10 اور پھر جنوں سے فرمائے گا۔۔۔۔۔۔ ف 11 یا ان کو اپنا مطیع اور فرماں بردار بناکر خوب مزے سے لوٹے، ف 12 جنوں جنوں کا انسانوں سے فا ئدہ اٹھانا یہ ہے کہ انہوں نے ان کو گمراہی کی طرف دعوت دی اور انسانوں نے اسے قبول کرلیا اور انسانوں نے جنوں سے یہ فائدہ اٹھایا کہ انہوں نے ان سے طرح طرح کے گناہ اور برے کام سیکھے اور آخرت سے غافل ہو کر دنیا پرستی میں مست ہوگئے۔ (کذافی الکبیر ) ف 1 یا جب اللہ تعالیٰ چاہے کہ وہ اس میں نہ رہیں۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ دوزخ بآلا خر فناہو جائے گی بلکہ دوزخ تو جنت کی طرح ہمیشہ رہے گی۔ ( دیکھئے سورۃ ہود آیت 107) لفظ إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُۚ سے جو شبہ پیدا ہوتا ہے اس کے جواب میں شاہ صا حب (رح) فرماتے ہیں ’’جو فرمایا کہ آگ میں رہا کریں گے مگر جو چاہے اللہ‘‘ تو یہ اس لیے کہ اگر دوزخ کا عذاب دائمی ہے تو اس کے چاہنے سے ہے۔ وہ چاہے تو مو قوف کرے لیکن وہ ایک چیز چاہ چکا ،( مو ضح)