أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور منصف تلاش کروں، حالانکہ اسی نے تمھاری طرف یہ کتاب مفصل نازل کی ہے اور وہ لوگ جنھیں ہم نے کتاب دی ہے، وہ جانتے ہیں کہ یقیناً یہ تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کی ہوئی ہے، پس تو ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔
ف 9 ا پر کی آیات میں یہ بتادیا کہ یہ کفار کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے لہذا ان کے لیے آیات کا نازل کرنا بے فائدہ ہے اب یہاں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو مفصل کتاب نازل فرمائی ہےوہ آپ (ﷺ) کی نبوت کی صداقت پر دلیل کے لیے کافی ہے (کبیر) کفار مکہ یہ چاہتے تھے کہ ان کے اور نبی (ﷺ) کے درمیان جو مخالفت ہے ان کے بارے میں اہل کتاب کو حکم بنالیا جائے ۔ پھر جو فیصلہ وہ دیں اسے تسلیم کرلیا جائے، اس میں ان کی اس تجویز کا جواب دیا جا رہا ہے۔ ف 10 کیونکہ ان کے انبیا بھی انہی نبی (ﷺ) بشارت دیتے رہے ہیں اور ان کی کتابوں میں بھی آپ (ﷺ) کی علامات موجود ہیں۔ ف 11 یعنی اس بارے میں کہ اہل کتاب کے دلوں میں قرآن کے سچاہو نے کا یقین ہے خطاب تو آنحضرت (ﷺ) سے ہے مگر اس سے مراد سارے مسلمان ہیں۔ (کبیر)