وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ
اور وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا، پھر ایک ٹھہرنے کی جگہ اور ایک سونپے جانے کی جگہ ہے۔ بے شک ہم نے ان لوگوں کے لیے نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیں جو سمجھتے ہیں۔
ف 2 ٹھہر ن کی جگہ یعنی ماں کا رحم اور ایک سونپے جانے کی یعنی باپ کی پشت حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) اور مفسرین کی ایک جماعت سے اس کے برعکس بھی منقول ہے یعنی مستقر باپ کی پشت) اور مستودع (ماں کا رحکم) بعض نے ان سے دنیا اور آخرت ی اقبر بھی مراد لی ہے مگر حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں پہلا قول زیادہ واضح ہے شاہ صاحب لکھتے ہیں اول ماں کے پیٹ میں سپرد ہوتا ہے تاکہ آہستہ آہستہ دنیا میں رہنے کی صلاحیت پیدا کرے پھر دنیا میں آکر ٹھہر تا ہے پھر سپرد ہوگی قبر میں تاکہ آہستہ آہستہ آخرت کا اثر قبول کرسکے پھر جا ٹھہرے گا جنت یا دوزخ میں ( مو ضح) ف 3 اوپر دلائل آفاقی بیان فرمائے ہیں اور اس آیت میں دلائل نفسی کی طرف اشارہ ہے اور دلائل آفاقی سے دلائل انفسی کا سمجھنا ذرا زیادہ غور کا محتاج ہے اس لئے یہاں سمجھ کا لفظ فرمایا ہے اور اول کے متعلق علم کاو اللہ اعلم (وحیدی) ف 4 یعنی ہر قسم کی نبا تات۔، (فتح لقدیر)