وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
اور یہ ہماری دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلے میں دی، ہم درجوں میں بلند کرتے ہیں جسے چاہتے ہیں۔ بے شک تیرا رب کمال حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
ف 2 اس حجت سے مراد وہ دلائل توحید ہیں جو قوم کے مقابلے میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے پیش کئے یہ دلائل اللہ تعالیٰ نے قوم کے مقابلہ میں حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) کو عطا فرمائے تھے اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ باتیں عہد طفولیت کی نہیں ہیں کہ آپ شرک سے درجہ بدرجہ توحید کی طرف بڑھے ہوں کیونکہ اللہ کا نبی معرفت الہی میں کبھی غلطی نہیں کرتا۔ (رازی) ف 7 یعنی چونکہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنی جان کو کوئی پروانہ کی اور اپنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو توحید کی دعوت دینے کے لے وقف کردیا اس لئے ہم نے بھی ان پر بڑے بڑے احسانا فرمائے دنیا ہی میں انہیں یہ انعام دیا کہ نیک اولاد سے نوازار اور ان کے بعد ان کی ذریت میں نبوت اور کتاب اتارنے کا سلسلہ جاری کردیا اور اسی سلسلے کے آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔