فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ
پس ان لوگوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں یہ اللہ کے پاس سے ہے، تاکہ اس کے ساتھ تھوڑی قیمت حاصل کریں، پس ان کے لیے بڑی ہلاکت اس کی وجہ سے ہے جو ان کے ہاتھوں نے لکھا اور ان کے لیے بڑی ہلاکت اس کی وجہ سے ہے جو وہ کماتے ہیں۔
ف 2 یہ تعلم یافتہ طبقہ کی حالت ہے جو خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے لیے فتوے دیتے رہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ عوام کو محض دنیا کمانے کے لیے ان کی خواہشات مطابق پاتیں جوڑ کر لکھ دیتے ہیں اور انہیں بڑی ڈھٹائی اور جرات سے خدا اور رسول کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ ( فتح البیان) ایسے لوگوں کے لیے ویل ہے ترمذی میں مرفوعا روایت ہے کہ دیل جہنم میں یاک وادی کا نام ہے کافر ستر سال کی مسافت تک اس کی گہرائی میں چلا جائے گا مگر اس کی گہرائی تک نہ پہنچے گا۔ اور دیل کے معنی ہلاکت اور تبا ہی ہلاکت کے بھی آتے ہیں۔ (ابن کثیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں مسلمانوں ! جب اللہ نے تمہیں بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتاب کو بدل ڈالا ہے وہ خود اپنے ہاتھوں سے لکھ کر اور اسے اللہ کی کتاب ٹھہر اکر سستے داموں فروخت کر ڈالتے ہیں اور تمہارے پاس اللہ کی تازہ کتاب قرآن مجید موجود ہے پھر تم کو اہل کتاب سے کچھ دریافت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ (ابن کثیر) ابن عباس کے اس قول پر ان حضرات ہی کیا ہے۔ (ابن کثیر) ابن عباس کے اس قول پر ان حضرات کو خاص طور پر غور کرنا چاہیے جو صحیح احادیث کر چھوڑ کر توریت، انجیل اور تلمودے کے محرف اقوال سے شغف فرماتے ہیں نیز اس آیت پر ان لوگوں کو بھی غور کرنا چاہیے جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر ادھر ادھر کی بے سند کتابوں کو اپنا دین بنائے ہوئے ہیں۔ مسئلہ الدارامنثور میں الجلال السیوطی نے سلف سے چند ایسے آثار نقل کیے ہیں جس نے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مصحف (قرآن مجید) کی بیع مکروہ سمجھتے ہیں کہ مصاحف کی خرید و فر خت جائز ہے۔ لا باس بھا یعنی اس میں کچھ حرج کی بات نہیں ہے۔ فتح القدیر )