وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ
اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تمھارے کسی ایک کو موت آتی ہے اسے ہمارے بھیجے ہوئے قبض کرلیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔
ف 1 اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے جیساکہ قرآن کی متعد آیات اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے تاہم اللہ تعالیٰ کی قاھر فق عبادہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے بندوں پر کامل غلبہ اور اقتدار رکھت ہے جنانچہ امام رازی لکھتے ہیں کہ یہاں فوقیتہ سے مراد قہر و قدرۃ ہے نہ کہ فوقیت بمعنی الجھتہ کیوں کہ مکان کی بلندی قہر اور غلبہ کو مستلز م نہیں ہے بغوی لکھتے ہیں کہ : القاھر الغالب وفی القھر زیادۃ معنی القدرۃ وھو منع غیرہ عن بلوغ المررام المراد ( معالم) یعنی قاہر کے معنی لکھتے ہیں کہ یہاں فوقیتہ سے مراد قہر وقدرت ہے یعنی خود قادر ہونے کے لیے ساتھ دوسرے کو مراد حاصل کرنے سے روک دینے والا۔ اللہ تعالیٰ کی صفت قہاریت یہ ہے کہ کائنات کو عدم سے وجود بخشا اور پھر وجود پر قنا اور فساد طاری کرتا رہتا ہے۔ پس ممکنات میں جس قدر بھی کون دفساد ہورہا ہے سب اللہ تعالیٰ کی صفت قہاریت کا مظہر ہے اور آیت قل اللھم مالک الملک الخ۔ صفت قہاریت کے پوری طرح تشیریح کر رہی ہے۔ (کبیر) جو تمہاری آفات سے حفاظت کرتے ہیں نیز تمہارے اعمال کو محفوظ کرتے ہیں علما کے نزدیک یہاں حٖظتہ سے اعمال لکھنے والے فرشتے مراد ہیں۔ ( کبیر) نیز دیکھئے (انفطار آیت 10 ق 18) ف 3 یعنی جس کی جان قبض کرتے ہیں اللہ کے حکم سے اس کے مقررہ وقت پر کرتے ہیں نہ اس سے پہلے نہ اسکے بعد اصل میں جان تو ملک الموت قبض کرتا ہے مگر اس کے ساتھ رحمت اور عذاب کے فرشتے ہوتے ہیں۔ حضرت انس (رض) سے لوگوں نے دریافت کیا کہ آیا موت کا فرشتہ ایک ہے یا بہت سے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ہی جواب دیا اور دلیل میں یہ آیت تلاوت کی (المنار) نیز دیکھئے سورت سجدہ آیت 11 درحقیقت موت وحیاۃ تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ( حج 66) مگر فرشتے چونکہ اس کی طرف سے مامور ہیں اس لیے ان کی طرف بھی روح قبض کرنے کی نسبت کردی گئی ہے۔ (قرطبی)