وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہہ سلام ہے تم پر، تمھارے رب نے رحم کرنا اپنے آپ پر لازم کرلیا ہے کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ تم میں سے جو شخص جہالت سے کوئی برائی کرے، پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو یقیناً وہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
ف 12 پہلی آیت میں انکے طرد سے منع فرمایا اب اس آیت میں ان کے اکرام کا حکم دیا) (رازی) یعنی جھو لوگ کفر وشرک کے غلبہ کے باوجود اس پر آشوب دور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کر کے مسلمان ہو رہے ہیں انہیں امن وسلامیت کو خوشخبری دے دیجئے یعنی یہ کہ اسلام لانے سے وہ اللہ کے عذاب سے مامون ہوگئے۔ اب ان اعمال پر مواخذ نہیں ہوگا جو وہ کفر کی زندگی میں کرتے رہے ہیں۔ المنار، عن ابن عباس (رض) اس سے معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کا احترام کرنا چاہیے اور انہیں ناراض نہیں کرنا چاہیے (قرطبی) ف 1 نادانی سے گناہ کر بیٹھنے کا مطلب اس ککے انجام بد کو نہ سمجھنا ہے۔ ( دیکھئے سورۃ نسا آیت 17) اوپر کی آّیتوں میں انذار تھا اب اس آیت میں تبشیر ہے۔ یعنی حق ظاہر ہوجا تے ہیں کہ اس پر عمل کیا جاسکے اور مجرموں کی راہ واضح ہوجائے تاکہ اس سے اجتناب کیا جا سکے ( جلالین) اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ دعوت وتبلیغ کا کام کرتے ہیں ان کو مخالفین (مجرمین کے) ہتھکنڈوں اور دلائل سے بھی پوری طرح باخبر ہونا چاہیے تا نہ ان کی تردیدی ہو سکے صح بہ کرام میں یہی خوبی تھی کہ ایک طرف تو وہ اسلام کو خوب سمجھتے تھے اور دوسری طرف جاہلیت کے رسم وراج اور قوانین سے پوری واقفیت رکھتے تھے یہ مضمون حافظ ابن القیم کی کتاب الفوائد میں خوب بیان ہو اہے۔