وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ
اور زمین میں نہ کوئی چلنے والا ہے اور نہ کوئی اڑنے والا، جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے مگر تمھاری طرح امتیں ہیں، ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی، پھر وہ اپنے رب کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔
ف 7 مطلب یہ ہے کہ جمیع بہائم اور پرندے تمہاری طرح کی امتیں ہیں اور جس طرح ان کے رزق اور مصالح کی رعایت کی گئی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کے مصالح کی بھی رعایت کی ہے اور ان کے مطالبہ کے مطابق آیات نازل کرن خود ان کے مصلحت کے خلاف ہے (رازی) یا مثل تمہاری ہیں طرح ہیں (فتح البیان) ف 8 یعنی لوح محفوظ میں (موضح) جو کہ تمام مخلوقات کے احوال پر پوری طرح حاوی ہے کہ ایک حدیث میں ہے جف القلم بما ھو اکاسو الی یوم القیامتہ کہ قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس کی تحریر سیاہی خشک ہوگئی ہے (رازی ) اور اس سے مرد قرآن پاک بھی ہوسکتا ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اور یہی اظہر ہے اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں دین سے متعلق تمام اصول (بنیاد دی امور بیان کردیئے اور جب جزئیات کا ذکر نہیں کیا وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے وقل و عمل سے بیان فرمادی ہیں اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ پیغمبر جس چیز کا حکم دیں اسے بجا لاو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاو پس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بھی کتاب الہی ہے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جو عورت وسمہ یا بناوٹی بال لگاتی ہے اس پر اس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے ایک عورت نے کہا میں سارا قرآن پڑھا ہے مگر مجھ کوئی آیت ایسی نہیں ملی جس میں ایسی عورتوں پر لعنت ہو حضرت عبدا للہ بن مسعود نے فرمایا اگر تم قرآن پڑھ لیتیں تو معلوم ہو ہوجاتا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ما ماتاکم الرسول فخذ وہ الخ۔ الغرح حدیث کے وحی ہونے پر قرآن میں بہت سے دلائل مذکور ہیں۔ (رازی، ابن کثیر) ف 9 کفار کو تہدید ہے کہ جب اللہ تعالیٰ زمین کے کسی معمولی سے جانور یا پرندے کے حالات سے بھی نا واقف نہیں ہے اور اس اک نامہ اعمال محفوظ ہے اور اس کا اے بد لہ بھی ملیگا تو تم اپنے بارے میں یہ کیوں سمجھ رہے ہو کہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ نہیں دیا جائے گ (کذافی الکبیر )