سورة الانعام - آیت 32

وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور دنیا کی زندگی کھیل اور دل لگی کے سوا کچھ نہیں اور یقیناً آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ڈرتے ہیں، تو کیا تم نہیں سمجھتے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 7 دنیا کے سریع الزوال ہونے کے اعتبار سے اس کو لہو ولعب فرمای ہے رازی یعنی آخرت کی حقیقی اور ابدی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی اور لذتیں ایسی ہی ہیں جیسے بچوں کا کھیل تماشا جو تھوڑی دیر میں ختم ہوجاتا ہے حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کا حساب لیا اور موت کے بعد آنے والی زندگی کے لیے عمل کیا اور عاجز (احمق) وہے جس نے اپنے نفس کو اپنے خواہشوں کے پیچھے لگادیا او پھر اللہ سے بخشش کی آرزو رکھی ترمذی) ف 8 یعنی ان لوگوں کے لیے جو اپنی زندگی میں۔ شرک کفر نفاق اور کبائر سے بچتے ہیں ورنہ کافر کے لیے تو دنیا کی زندگی ہی بہتر ہے جیسا کہ حدیث میں ہے الدینا سجن المو من وجنتہ اللکافر کہ مومن کے لیے تو دنیا قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے (کبیر) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب تک نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا آپ کی قوم کے تمام لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امین اور صادق کہتے تھے لیکن جونہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نبوت کا اعلان کیا اور انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات سنانا شروع کیں تو ان میں سے اکثر آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (نعوذ باللہ) جھوٹا قرار دینے لگے ابو جہل سے بڑھ کر آپ کا کون دشمن ہوگا۔ لیکن حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کرتے ہوئے کہ انا لا تکذبک ولکن نکذب ماجئت بہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو جھوٹا نہیں کہتے لیکن جو پیغام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے ہیں اسے جھوٹا قرار دیتے ہیں ایک دوسرے موقع پر اسی ابو جہل نے اخنس بن شریق سے تنہائی میں کہا اللہ کی قسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سچاانسان ہے اور ساری عمر میں اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن جب نوار، سقایت حجابت اور نبوت سب بنی قصی ہی کے حصہ میں آجائیں تو بتاو باقی قریش کے پاس کیا رہ گیا۔ ( حاکم، ابن ہشام) اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ یہ لوگ جو آپ کی تکذیب کر رہے ہیں وہ حقیقت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نہیں بلکہ ہماری آیات تکذیب ہے کیونکہ شخصی لحاظ سے تو یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر ہی نہیں سکتے اس سے مراد دراصل وہ کفار ہیں جو بشر کے نبی اور رسول ہونے کا محال سمجھتے ہیں (ابن کثیر)