ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں جیسے ہیں، یا سختی میں (ان سے بھی) بڑھ کر ہیں اور بے شک پتھروں میں سے کچھ یقیناً وہ ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اور بے شک ان سے کچھ یقیناً وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں، پس ان سے پانی نکلتا ہے اور بے شک ان سے کچھ یقیناً وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور اللہ اس سے ہرگز غافل نہیں جو تم کر رہے ہو۔
ف 3 امام رازی لکھتے ہیں کہ جب ایک شی میں دوسری شی سے متا ثر ہونے کی صلاحیت ہو اور پھر کسی عارضہ کے سبب وہ صلاحیت سلب ہوجائے تو عربی زبان میں اس پر قاصی یا لفظ بولا جاتا ہے یہی حال انسان کے دل کا ہے کہ اس میں دلائل وآیات سے متاثر ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے مگر جب عوارض کے سبب وہ صلاحیت سلب ہوجاتی ہے تو عدم تاثیر میں اسے پھتر کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو سرزنش فرمائی کہ عجب کمبخت قوم ہو کہ مردہ کا جی اٹھنا تک تو تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ مگر پھر بھی تم اپنے کفر اور شرک پر ڈٹے رہے اور تمہارے دل نرم ہونے کی بجائے اور سخت ہوگئے جیسے پتھر بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہل کتاب کا رویہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے وَلا یَکُونُوا کَالَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الأمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُہُمْ (الحدید :16) یعنی ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز گزر نے سے ان کے دل سخت ہوگئے۔ (_ابن کثیر) بعض نے یہاں پتھر کی طرف خشیت کی نسبت کو مجاز پر محمول کیا ہے مگر اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جمادات میں شعور اور احساس متعدد آیات اور احادیث سے ثابت ہے۔ مثلا آیت احادیث صحاح میں ہے صحیح مسلم) وغیر ذلک۔ (ابن کثیر پھر اس کا انکار کرنا بڑی گمراہی وضلالت ہے فوئد سلفیہ) ہم پر لفظ قرآن کا حجت ہے اتباع ظاہر لفظ کا فرض