قُل لِّمَن مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُل لِّلَّهِ ۚ كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
کہہ کس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے؟ کہہ اللہ کا ہے، اس نے اپنے آپ پر رحم کرنا لکھ دیا ہے، یقیناً وہ تمھیں قیامت کے دن کی طرف (لے جا کر) ضرور جمع کرے گا، جس میں کوئی شک نہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا، سو وہی ایمان نہیں لاتے۔
ف 11 وعط و نصیحت اوتحذیر کے بعد اب دوبارہ اصول ثلاثہ (مبدا معاد، نبوات) کے اثبات پر دلیل قائم کی ہے یعنی آسمان وزمین کا خالق اور مالک اللہ ہی ہے اور اس کی ملکیت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ( رازی) ف 12 اور پھر اس نے محض اپنے فضل وکرم سے سے اپنے بندوں سے رحمت کا وعدہ فرمایا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو رحمان ورحیم ہونے پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا اللہ تعالیٰ کی وسعت رحمت کا ذکر بہت ہی احادیث میں بھی مذکور ہے ایک حدیث میں ہے جب اللہ تعالیٰ خلق سے فارغ ہوا تو کتاب میں لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی۔ (رازی) ف 13 یعنی قیامت کا آنا ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی سمجھ دار آدمی انکار نہیں کرسکتا اس سے انکار اگر کوئی کرسکتا ہے تو وہی جو اپنی عقل وفطرت سے کام نہیں لیتا۔