وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ
اور جب اللہ کہے گا اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟ وہ کہے گا تو پاک ہے، میرے لیے بنتا ہی نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں، اگر میں نے یہ بات کہی تھی تو یقیناً تو نے اسے جان لیا، تو جانتا ہے جو میرے نفس میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے نفس میں ہے، یقیناً تو ہی سب چھپی باتوں کو بہت خوب جاننے والا ہے۔
ف 5 اس کا تعلق اوپر کی آیت واذقال اللہ یعیسی ابن مریم 1) کے ساتھ ہے گویا پہلے طور پر تمہید حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر اپنے انعامات شمار کئے ہیں اور اب اصل مقصد شروع ہوا ہے یہ مخاطبہ قیامت کے دن ہوگا بعض نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھانے کے بعد یہ مکالمہ ہوچکا ہے مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ ابتدا میں آیت کہ ما یحبع اللہ الرسول اور اخر میں ھذا یوم ینفع الصاد قین صدقھم سے جن سے تینا قیامت کا دن مراد ہے۔، ( کبیر، قرطبی) اس غرض بھی نصاریٰ کو تو بیح ہے،( ابن کثیر ) ف 6 تیرا کوئی شریک نہیں پھر بھلا میں اور عمیری وعدہ تیرے شریک کیسے ہو سکتے ہیں۔ ف 7 یعنی میں تو تیرے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں پھر بندے کی کیا مجال کہا پنے آقا کے مقابلہ میں خدائی کا دعویٰ کرے ف 8 یعنی بالفرض میں نے ایسی کوئی بات کہی ہو تو تجھے اس کا ضرور علم ہوگا کیونکہ تجھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی ف 9 تو زبان سے نکلا ہوئی بات کیوں نہ جانے گا ! ف 10 تیرے سواکسی کو علم غیب نہیں جس بندے کے پاس جو بھی علم ہے وہ سب تیرا عطاکردہ ہے اور کسی کا علم تیرے علم کے مقابلہ میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتا جتنی سمندر کے مقابلہ میں پانی کا یاک قطرہ۔