فَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
پھر اگر اطلاع پائی جائے کہ بے شک وہ دونوں کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو دو اور ان کی جگہ کھڑے ہوں گے، ان میں سے جن کے خلاف گناہ کا ارتکاب ہوا ہے، جو زیادہ قریب ہوں، پس وہ دونوں اللہ کی قسم کھائیں گے کہ یقیناً ہماری گواہی ان کی گواہی سے زیادہ سچی ہے اور ہم نے زیادتی نہیں کی، بے شک ہم اس وقت یقیناً ظالموں میں سے ہوں گے۔
ف 6 یعنی انہوں نے جھوٹی گواہی دی یا جھوٹی قسم کھائی یا خیانت کا ارتکاب کیا (شوکانی) ف 7 مترجم لکھتے ہیں کہ یہ ترجمہ قرات حٖفص پر ہے لیکن اکثر یوں تر جمہ کیا ہے تو ان کی جگہ دو اور شخص ان لوگوں میں سے (گواہی کے لیے) کھڑے ہوں جن کا حق پہلے دوگوا ہوں نے دبایا ہے یعنی میت کے قریبی رشتہ دارْوں میں اس سے اس لیے کہ وہ گواہی دینے اور قسم کھا نے کے دواسروں کی بہ نسبت زیادہ حق دار ہیں۔ (کذافی، شوکانی) میت کے وارثوں سے قسم اس لیے گئی کہ ان کافروں نے دعوی ٰ کیا تھا کہ وہ مسروقہ پیالہ مرنے والے نے ہمارے ہاتھ بیچ ڈالا تھا اور وارث اس بیع سے انکار کرتے تھے اور مدعی کے پاس گواہ موجود نہ تھے اس لیے منکر (وارثوں) پر قسم عائد کی گئی (کبیر )