يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان چیزوں کے بارے میں سوال مت کرو جو اگر تمھارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تمھیں بری لگیں اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جب قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو تمھارے لیے ظاہر کردی جائیں گی۔ اللہ نے ان سے در گزر فرمایا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت برد بار ہے۔
ف 2 یعنی رزق حرام کی فراوانی اور اس پرعیش وعشرت گو بظاہر کتنی خوش کن کیوں نہ ہو مگر انسان کو چاہیے کہ رزق حلال پر قناعت کرے خواہ وہ طاہر میں کتنا ہی حقیر ارکم کیوں نہ ہو، ج ف 3 یعنی بلا ضرورت سوال کرو گے اور تمہاری مصلحت کے خلاف اس کا حکم اتر آیا ہے تو خواہ مشکل میں پڑ جاو گے اور پھر بجا نہ لانے کی صور میں اللہ تعالیٰ کے رسول کے نافرمان قرار پاو گے۔ ف 4 اور اسی طرح تم بہت سی چیزوں کو اپنے اوپر فرض قرار دے لوگے اس بنا پر متعدد روایات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کثرت سوال سے منع فرمایا ہے ایک موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس کے سوال کے سبب کوئی ایسی چیز حرم ہوگئی جو پہلے حرام نہ تھی۔ (دیکھئے بقرہ آیت 108۔ ابن کثیر) ف 5 دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور معافی ہے کہ اس نے ان چیزوں کے بیان نہیں کیا اور تمہا رے لیے ان کے ذکر نے اور نہ کرنے کی گنجائش باقی چھوڑدی (کبیر۔ ابن کثیر )