مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
نہیں ہے مسیح ابن مریم مگر ایک رسول، یقیناً اس سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے اور اس کی ماں صدیقہ ہے، دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔ دیکھ ان کے لیے ہم کس طرح کھول کر آیات بیان کرتے ہیں، پھر دیکھ کس طرح پھیرے جاتے ہیں۔
ف 7 اور ان کی ذات سے بھی ایسے ایسے معجزات کا ظہور ہوا جو انسانی طاقت سے باہر تھے تو جس طرح یہ تمام انبیا اپنے ان معجزات کی بنا پر خدا نہیں ہوگئے مسیح ( علیہ السلام) بھی محض بن باپ کے پیدا ہونے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے مردوں کو زندہ اور بیماروں کو شفا یاب کرنے کی وجہ سے خدا نہیں بن سکتے (کبیر، قرطبی) ف 8 یعنی عبودیت کے اعلی مقام پر فائز تھیں جو نبوت کے بعد دوسرا درجہ ہے (دیکھئے التحریم آیت 12۔ النسا :69) بنیہ نہیں تھیں ج جیسا ابن حزم وغیرہ کا خیال ہے کیونکہ جمہور علما کے نزدیک انبیا رجال سے ہوئے ہیں (دیکھئے سورت یوسف :109۔ النحل 43، الا نبیا :7) ابو الحسن اشعری نے اس پر اجماع نقل کیا ہے (ابن کثیر) ف 9 یعنی یہ دونوں عام انسانوں جیسے انسان تھے جن میں تمام بشر خاصیتیں اسی طرح موجود تھیں جس طرح دوسرے انسانوں میں پائی جاتی ہیں ( ابن کثیر) ف 10 یعنی اب وہ اپنے کروہی تعصب کی بنا پر اپنے غلط عقیدے سے چمٹے رہیں تو چمٹے رہیں ورنہ کوئی عقلی یانقلی دلیل ان کے پاس نہیں ہے جس کے بودے پن کو دو اور دو چار کی طرح واضح نہ کردیا گیا ہو (ابن کثیر) یہ نصاری کے عقیدہ کی ترید پر دوسری دلیل ہے (کبیر) مطلب یہ ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو ان میں الوہیت کا کوئی وصف بھی نہیں ہے، ان کا دوسروں کو نفع ونقصان پہنچا نا تو کجا خود اپنے سے دشمن کے ظلم کو دفع کرنے کے لیے اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعا کرتے رہے کہ اے اللہ مجھ سے مصیبت کلیہ وقت ٹال دے پھر اس کے بعد بھی اگر تم اس سمیع وعلیم کو چھوڑ کر حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو اپنا معبود بناو تو اس بڑھ کر جہالت اور کیا ہو سکتی ہے (ابن کثیر، رازی )