يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر خوب قائم رہنے والے، انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں ہرگز اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔
ف 1 اس آیت میں نعمت سے مرا اسلام ہے اور میثاق (اقرار) سے مراد وہ عہد ہے جو آنحضرت ﷺ ہر آدمی سے مسلمان ہونے پرلیا کرتے تھے کہ وہ خوشی اور رنج ہر حال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سمع واطاعت کرے گا یہ عہد اگرچہ نبی ﷺ لیاکر تے تھ لیکن چونکہ وہ اللہ کے حکم سے تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف منسوب فرمایا فتبا لمنکر السنتہ اور اس سے مراد وہ عہد بھی ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ذریت آدم سے لیا تھا اور یہ بھی کہ یہود کی متنبہ فرمایا ہو کہ آخری نبی آنحضر ﷺ کی متابعت کا جو عہد تم سے لیا گیا ہے اس کو پورا کرو مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے (ابن کثیر) ف 2 آیت کریمہ میں اللہ سے حقوق الہیٰ کی نگہداشت کی طرف اشارہ ہے یعن خاص اللہ تعالیٰ کی رضامند ی حا صل کرنے کے لیے حق پر قائم رہو۔ اور شھد دابلقسط سے حقوق العباد کی نگرانی کا حکم ہے۔ (کبیر) یہ تمہید ہے اور اس کے بعد دشمن کے بارے میں کچھ ہدایات دی ہیں جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے اس لیے آگے انہی کی تفصلی ہے یعنی کسی نے تمہارے ساتھ کتنی ہی دشمنی کا معاملہ کیوں نہ کیا ہو تم بہرحال اس سے معاملہ کرتے وقت عد ل وانصف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ یہ آیا یہود بنو نضیر کے بارے میں نازل ہوئیں نبی ﷺ ایک دیت کے سلسلہ میں ان کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ ﷺ کو قتل کرنے کی سازش کی ابن کثیر۔ ابن جریر) شاہ صاحب (رح) لکتھے ہیں اکثر کافروں نے مسلمانوں سے بڑی دشمنی کی تھی پیچھے مسلمان ہوئے تو فرمایا کہ ان سے وہ دشمنی نہ نکالو۔ اور ہر جگہ یہی حکم ہے حق بات میں دوست اور دشمن برابر ہیں۔ ( مو ضح)