يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ کہہ دے تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور شکاری جانوروں میں سے جو تم نے سدھائے ہیں، (جنھیں تم) شکاری بنانے والے ہو، انھیں اس میں سے سکھاتے ہو جو اللہ نے تمھیں سکھایا ہے تو اس میں سے کھاؤ جو وہ تمھاری خاطر روک رکھیں اور اس پر اللہ کا نام ذکر کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
ف 10 مواشی کا حکم تو فرمادیا۔ پھر لوگوں نے اور چیزوں کو پوچھا تو فرمایا ستھری چیزیں تم کو حلال ہیں۔ سو حضرت (ﷺ) جو چیزیں منع فرمائیں معلوم ہوا کہ وہ ستھری نہیں جیسے پھاڑنے والا جانور مثلا شیر، چیتا، باز یا چیل اس میں داخل ہوئے مردرار خوار سارے کوا وغیرہ اور جیسے گدھا اور خچر اور جیسے کیڑےزمین کے مثلا چوہا وغیرہ (از موضح) ف 11 شکاری جا نور سے ہر وہ درندہ یا پرندہ مراد ہے جس کو شکار کے لیے رکھا اور سدھا یا جاتا ہے اور اس کے ’’سدھائے ہوئے ‘‘ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ شکار پر چھوڑا جائے تو اس کو اپنے مالک کے لیے پکڑے ۔اگر وہ شکار پکڑ کر خود کھانے لگے تو اس کا شکار کھانا درست نہیں ہے اور یہی معنیمِمَّآ أَمۡسَكۡنَکے ہیں۔ حضرت عدی (رض) نبی (ﷺ) سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا اگر اسے (یعنی شکاری کتے کو) چھوڑ تے وقت تم نے اللہ کا نام لیا ہے تو اسے کھا ؤ ورنہ مت کھا ؤ اور اگر اس نے شکار سے کچھ کھالیا ہے تو بھی نہ کھاؤكیونکہ اس نے دراصل وہ شکار اپنے لیے پکڑا ہے (بخاری )