سورة النسآء - آیت 148

لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ بری بات کے ساتھ آواز بلند کرنا پسند نہیں کرتا مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو اور اللہ ہمیشہ سے سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 یعنی اگر کسی میں کوئی دینی یا دنیو عیب پایا جاتا ہے تو اسے بر سر عام رسو انہ کیا جائے اور ہر شخص کو بتایا جائے کیونکہ یہ غیبت ہے او غیبت قطعی حرام ہے۔ البتہ جب کوئی شخص ظلم پر اتر آئے تو اس کے عیوب دوسروں کے سامنے بیان کرنے جائز ہیں حدیث اذکر وا الفاسق بما فیہ کی تحذ رہ الناس کہ فاسق کے فسق کو لوگوں کے سامنے بیان کرو تاکہ لوگ اس سے محتاط رہیں نیز کوئی شخص باوجود وسعت کے دوسرے کا حق نہ دیتا ہو تو اس کو طعن ملامت جائز ہے حدیث میں ہے لتی الو جد ظلم یحل عرضہ وعقو بتہ کہ کسی غنی آدمی کا صاحب حق کا حق ادانہ کرنا ظلم ہے جو اس کی آبرو اور عقوبت کو حلال کردیتا ہے۔ اسی طرح جو پہلے زیاتی کرے جیسے حدیث میں ہے المتساباب ماقالاہ قد لی البادی منھما ما لم یعتد المظلوم کہ دوشخص آپس میں گالم گلوچ کریں تو سارا گناہ ابتدا کرنے والے پر ہے بشر طیکہ مظلوم زیادتی نہ کرے اس آیت کے تحت علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ ظالم کے حق میں بد عا کرنی بھی جائز ہے ( دیکھئے شوری ٰ آیت 41) حالت اکراہ میں برا کلمہ بھی الامن ظلم مستثنیٰ متصل بحذف مضاف ای الا جھر من ظلم وان کان الجھر مبتنی المجا ھر فلا حذف ویحتمل ان یکون منقطعا ای لکن من ظلم فلہ ان یقول ظلمنی فلان۔ (قرطبی) فائدہ گذشتہ آیات میں منافقین کے عیوب کا بیان تھا۔ یہاں استدراک کے طور پر بتایا کہ چونکہ ظالم ہیں تاہم حتی الوسع نام لے کر عیب بیان نہ کرے (موضح)