يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے، اللہ کے لیے شہادت دینے والے بن جاؤ، خواہ تمھاری ذاتوں یا والدین اور زیادہ قرابت والوں کے خلاف ہو، اگر کوئی غنی ہے یا فقیر تو اللہ ان دونوں پر زیادہ حق رکھنے والا ہے۔ پس اس میں خواہش کی پیروی نہ کرو کہ عدل کرو اور اگر تم زبان کو پیچ دو، یا پہلو بچاؤ تو بے شک اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے پوری طرح باخبر ہے۔
ف 5 یعنی سچی شہادت دوچاہے وہ تمہارے خلاف ہی پڑے اور اس میں پڑے اور اس میں تمہارا ذاتی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ (ابن کثیر) ف 6 اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد کی شہادت ماں باپ کے خلاف قبول ہوگی اور یہ ان کے ساتھ’’ بر‘‘ یعنی احسان کے منافی نہیں ہے۔ والدین اوبھائی کی شہادت بھی سلف کے نزدیک مقبول ہے۔ مگر یہ اسی صورت میں ہے جب وہ عدل ہوں اور ان پر تہمت نہ ہو۔ اسی تہمت کے پیش نظر بعض ائمہ نے میاں بیوی کی ایک دوسرے کے حق میں میں شہادت کو جائز رکھا ہے اور بعض نے رد کیا ہے۔ ( قرطبی) ف7 یعنی جس کے خلاف تمہاری گواہی پڑرہی ہے وہ دولتمند ہے تب اور غیر یب هے تب کسی حال میں اللہ کی شریعت سے زیادہ تمہاری طرف داری کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ لہذا نہ تم دولتمند سے ڈر کر اس کی طرفداری کرو اور نہ غریب پر ترس کھا کر اس کی بے جارعایت کرو بلکہ ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سچی گواهی دو۔ُ سدّی کہتے ہیں کہ دو آدمی نبی (ﷺ) کے پاس اپنا جھگڑا لے کر آئے جن میں سے ایک دولتمند تھا اور دوسرا غریب۔ آپ (ﷺ) کا دلی رحجان غریب کی طرف تھا۔ کیونکہ آپ (ﷺ) کا خیال تھا کہ یہ بیچارہ امیر آدمی پر کیسے زیادتی کرسکتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی۔ ابن کثیر) ف8 یعنی اگر اس طرح بناکر پیش کرو گے کہ جس کے خلاف گواہی پڑنی چاہیے وہ بچ جائے یا سرے سے گواہی ہی نہ دو گے تو جیسا کروگے اللہ کے ہاں اس کی سزا پاؤ گے (قرطبی۔ شوکانی)