فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا
پھر جب تم نماز پوری کرلو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر لیٹے ہوئے یاد کرو، پھر جب تم مطمئن ہوجاؤ تو نماز قائم کرو۔ بے شک نماز ایمان والوں پر ہمیشہ سے ایسا فرض ہے جس کا وقت مقرر کیا ہوا ہے۔
ف 2 کہ مبادا تمہیں غافل پاکر وہ تم پر اچانک حملہ کردے۔ ف 3 یعنی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی یاد میں مصروف رہو۔ یاں تک کہ عین اس وقت بھی جب معر کہ قتال گرم ہو جمہور مفسرین نے اس کے یہی معنی کئے ہیں، بعض مفسرین نے اس کے یہ معنی بتائے ہیں کہ جب نماز پڑھنا چاہو تو معر کہ قتال گرم ہونے کی وجہ کھڑے، بیٹھے لیٹے جس طرح نماز پڑھ سکتے ہو پڑھ لو۔ لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے۔ (قرطبی) ف 4 یعنی جب خوف کی حالت ختم ہوجائے اور تم میدان جنگ سے پلٹ کر اپنے گھروں میں آجاتو نماز کے اس کے جملہ ارکان شرئط اور حددد کے ساتھ مقررہ اوقات پر ادا کرو۔ اور قصر نہ کرو۔ ( قرطبی) دوسرا مطلب جیسا کہ شاہ صاحب (رح) نے لکھا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر خوف کے وقت نماز میں کوتاہی ہو تو نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کو اور طرح سے یاد کرو نماز میں قید ہے کہ وقت پر ہو اور اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر حال میں دورست ہے (موضح) بعض نے لکھا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ہے بہت سے مسلمان زخمی ہوچکے تھے مگر آنحضرت نے دشمنوں کے تعاقب میں دوبارہ نکلنے کا حکم صادر فرمایا اور یہ حکم بھی صرف انہی کو تھا جو احد میں شریک تھے (دیکھئے آل عمران 72) یعنی زخمی ہونے میں تو دشمن بھی تو تمہارے ساتھ شریک تھے، گو تمہیں یہ خصوصیت حاصل ہے کہ تم بوجہ ایمان کے اللہ کے ہاں اجر وثواب کے امید وار ہو اور ان کو بوجہ کفر کے یہ نعمت حاصل نہیں ہے لہذا ان کے تعاقب میں کمزروی مت دکھاو (قرطبی)