أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا
تو کیا وہ قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے، اور اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔
ف 1 ابتدائے ہجرت میں منافقین کی حرکتوں سے چشم پوشی کا حکم تھا اس کے بعد آیت جاھد الکفار والمنا فقین ( کہ کفار اور منافقین سے جہاد کرو) سے یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے منافقین سے جہاد کے یہی معنی ہیں کہ ان کو زجرو وملامت کی جائے اور ان کی حرکتوں چشم پوشی نہ کی جائے تفصیل کے لیے دیکھئے التوبہ آیت 3) مگر امام رازی اس نسخ پر راضی نہیں ہیں (کبیر) ف 2 منافقین کے مکر وفریب اور مذموم خصائل کے ضمن میں قرآن کی حقانیت کے اثبات کی ضرورت ہے اس لیے پیش آئی کہ منافقین یہ سب مکرو فریب اور سازشیں اس بنا پر کررہے تھے کہ وہ آپ ﷺ کو سچا نبی نہیں سمجھتے تھے۔ لہذا یہاں آنحضرت ﷺ صدق نبوت پر بطور دلیل کے قرآن کو پیش کیا اور قرآن حکیم آنحضرت کے صدق نبوت کے تین وجوہ سے دلیل بنتا ہے اول اپنی فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے۔ (دیکھئے سورت بقرہ آیت 23) دوم امور غیب کی خبروں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے سوم اختلاف وتناقض سے پاک اور مبرا ہونے کی بنا پر یہاں اسی تیسری چیز کو بیان فرمایا ہے (رازی) مطلب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ ایک انسان برس ہابرس تک مختلف حالتوں میں مختلف موضوعوں پر خصاصا امور غیب سے متعلق۔ اس قدر تفصیل سے گفتگوکر تا رہے مگر اس کی ایک بات بھی دوسری سے متصادم نہ وہ یہ خصوصیت صرف قرآن میں پائی جاتی ہے جو غور و فکر کرنے والے کے لیے اس کے کلام الہی ہونے کی دلیل ہے۔ (شوکانی) اختلاف سے پاک ہونا درجہ فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے کیونکہ کوئی انسان خواہ کتنا ہی فصیح وبلیغ کیوں نہ ہو جب اتنی بڑی کتاب لکھے گا تو اس کے کلام میں قدرے تفاوت ضررور ہوگا اور ساری کتاب بلاغت میں یکساں مرتبہ کی نہیں ہوگی اور پھر یہ منافقین خفیہ طور پر در نہیں کرتے۔ ہیں اور وحی کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کی ان کے بھید من وعن بتادیئے جاتے ہیں اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی راز کے افشار میں قرآن نے تھوڑی بہت بھی غلطی یو ہو۔ یہی اس کے کلام الہی ہونے کی دیلیل ہے۔ ( کبیر) فائدہ معلوم ہوا کہ قرآن پاک میں تدبر کے بغیر انسان کے شکوک وشبہات دور نہیں ہو سکتے اور نہ قرآن صحیح طور پر سمجھ میں آسکتا ہے (م۔ ع )