وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِندِكَ بَيَّتَ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ ۖ وَاللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ ۖ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا
اور وہ کہتے ہیں اطاعت ہوگی، پھر جب تیرے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ رات کو اس کے خلاف مشورے کرتا ہے جو وہ کہہ رہا تھا اور اللہ لکھ رہا ہے جو وہ رات کو مشورے کرتے ہیں۔ پس ان سے منہ موڑ لے اور اللہ پر بھروسا کر اور اللہ کافی وکیل ہے۔
ف 12 یہاں منافقین کی ایک اور مذموم خصلت بیان فرمائی ہے اور ان کو سرزنش کی ہے اور آنحضرت(ﷺ) کو ان کی حرکات شنیعہ سے چشم پوشی اور اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم فرمایا ہے بَيَّتَ کا لفظ اصل میں بیت (گھر) سے ہے اور انسان چونکہ عمو مارات کو اپنے گھر میں رہتا ہے اس لیے بات کے معنی شب باشی کے ہیں پھر چونکہ رات کے فارغ اوقات میں آدمی اپنے معاملات پر غوروفکر کرتا ہے اس لیے بَيَّتَ کا لفظ کسی معاملہ میں نہایت غور وفکر کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ( رازی)