مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا
جو کوئی بھلائی تجھے پہنچے سو اللہ کی طرف سے ہے اور جو کوئی برائی تجھے پہنچے سو تیرے نفس کی طرف سے ہے اور ہم نے تجھے لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کافی گواہ ہے۔
ف 8 اس میں برائی اور بھلائی کا ایک قانون بیان فرمادیا ہے کہ بھلائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور جو برائی پہنچتی ہے اس کا بھیجنے والا بھی گو اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے مگر اس کاسبب تمہارے اپنے گناہ ہوتے ہیں۔ (دیکھئے سورت شوریٰ آیت 3) اس لیے سلف صالحین کا خام قاعدہ تھا کہ جن کوئی اجتہادی رائے ئ پیش کرتے تو کہتے کہ اگر یہ صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کے طرف سے اور اسی کی توفیق سے اور اگر غلط ہے تو ہماری طرف سے اور شیطان کی طرف سے (ابن کثیر) اوپر کی آیت میں خلق وایجاد کے اعتبار سے حسنتہ اور سیئہ دونوں کو من عند اللہ قرار دیا ہے اور اس آیت میں باعتبار کسب وسبب کے سیئہ کو انسان کی طرف منسوب کردیا ہے لہذا تعارض نہیں ہے۔ کذافی الکبیر) موضح میں ہے بندہ کو چاہیے نیکی اللہ کا فضل سمجھے اور تکلیف اپنی تصصیر سے۔ تصصیروں سے اللہ تعالیٰ واقف ہے اور وہی خبر دیتا ہے۔ ف 9 یعنی آپ کا اصل منصب رسالت اور تبلیغ ہے اور اللہ گواہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس امانت کے ادا کرنے میں کسی قسم کی تقصیر نہیں کی پھر اس کے بعد بھی اگر کسی کو ہدایت نہیں ہوتی تو آپ ﷺ کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ (کبیر) نیز آنحضرت ﷺ کی عمومی رسالت کا بیان ہے (دیکھیے اعراف 58 اسبا 128)