أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا
تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔ اور اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے، پھر ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔
ف 4 یعنی جب موت سے تمہیں کسی حال میں چھٹکا را نہیں تو پھر اللہ کی راہ میں جہاد سے کیوں ہچکچاتے ہو مقصد جہاد کی ترغیب ہے (کبیر) ف 5 اوپر بیان فرمایا کہ منا فیقن جہاد سے جی چراتے ہیں اور موت سے ڈرتے ہیں۔ اب یہاں ان کی ایک دوسر مذموم خصلت کا ذکر فرمایا جو پہلی بھی بری ہے یعنی نحوست کہ آنحضرتﷺ کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ (کبیر) یہاں الحسنہ سے مرا اد نصرت غلبہ اور خو شحالی وغیرہ ہے اور اس کے مقابلے میں السئیہ سے مراد بلا مصیبت قتل وہزیمت وغیرہ ہے۔ ف 6 یہ ان کے کلام کا جواب ہے کہ برائی بھلائی دونوں اسی کی طرف سے اور اسی حکم سے ہیں۔ ہر چیز کا پیدا کرنے والا وہی ہے بلا اور مصیبت کو کسی کی نحوست قرار دینا قطعی غلط ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ منافیقن کا ذکر ہے کہ گر تدبیر جنگ درست آئی اور فتح اور غنیمت ملی تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی یعنی اتفاقا بن گئی حضرت ﷺ کی تدبیر کے قائل نہ ہوتے تھے اور اگر بگڑگئی تو الزام رکھتے حضرت ﷺ کی تدبیر پر اللہ صاحب نے فرمایا کہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یعنی پیغمبر کی تد بیر اللہ کا الہام ہے غلط نہیں اور بگڑ ی کو بگڑا نہ بوجھو یہ اللہ تم کو سدھاتا ہے تمہاری تقصیر پر۔ اگلی آیت میں کھول کر بیان فرمادیا ہے (موضح) ف 7 یعنی تعجب ہے کہ اتنی بدیہی حقیقت بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی (رازی)