سورة البقرة - آیت 49

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب ہم نے تمھیں فرعون کی قوم سے نجات دی، جو تمھیں برا عذاب دیتے تھے، تمھارے بیٹوں کو بری طرح ذبح کرتے اور تمھاری عورتوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمھارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 2:فرعون اس زمانہ میں مصر کے بادشاہ کا لقب ہوتا تھا موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جو فرعون مصر تھا اس کے نام میں اختلاف ہے تفا سیر میں عموماً ولید بن مصعب مذکور ہے اور آل فر عون سے اس کے اتباع اور ہم مذہب لوگ مراد ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدا ئش سے قبل فرعون نے ایک خواب دیکھا کہ بیت المقدس سے ایک آگ نکلی ہے جس نے مصر کا احاطہ کرلیا ہے اور تمام قبطی اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں صرف بنی اسرا ئیل اس سے محفوظ رہے ہیں ۔اس وقت کے کاہنوں نےاس کی تعبیر یہ کی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیری سلطنت اور تیرے دین کو تباہ کر دے گا اس پر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے ہاں جو لڑکا پیدا ہو اسے مار ڈالا جائے اور جو لڑکی پیدا ہو اسے زندہ رہنے دیا جائے چنانچہ منصوبے کے تحت ہزار ہا بچے موت کے گھاٹ اتاردیے گئے مگر اللہ تعالیٰ کے ارادہ کو کون روک سکتا تھا۔ اسی ہنگامئہ کشت و خون میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ فرعون کے گھر میں ان کی نشو نماکرائی اور انہی کے ہاتھوں آخر کار فرعون اور اس کی حکومت تباہ ہوگئی یہاں پر’’ بَلَاءٌ‘‘ سے مراد انعام و احسان ہے یا مصیبت وآزمائش۔ (ابن کثیر )