وَلَئِنْ أَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللَّهِ لَيَقُولَنَّ كَأَن لَّمْ تَكُن بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا
اور اگر بے شک تمھیں اللہ کی طرف سے کوئی فضل حاصل ہوگیا تو یقیناً وہ ضرور کہے گا، جیسے تمھارے درمیان اور اس کے درمیان کوئی دوستی نہ تھی، اے کاش کہ میں ان کے ساتھ ہوتا تو بہت بڑی کامیابی حاصل کرتا۔
ف 1 مراد منافقین ہیں اور ان کو ظاہری اختلاط یانسب کے اعتبار سے ’’مِنكُمۡ‘‘کہہ دیا ہے مگر مفسرین کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ ان سے مراد ضعیف الا یمان ہیں پس’’ مِنكُم‘‘ اپنے اصل معنوں میں ہے۔ (رازی) یعنی ان کو تمہاری فتح کی خوشی ہے ارونہ تمہیں نقصان پہنچنے کا غم انہیں تو صرف مطلب سے مطلب ہے۔ فتح اورشکست دونوں حالتوں میں اس قسم کا وطیرہ اختیار کرتے ہیں کہ جیسے بالکل اجنبی ہوتے ہیں اور تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے پر آیتİكَأَن لَّمۡ تَكُنۢ بَيۡنَكُمۡ وَبَيۡنَهُۥ مَوَدَّةĬ جملہ معترضہ ہے اور يَالَيْتَنِي الخ لَيَقُولَنَّکا مقولہ ہے (رازی )