فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا
پس اپنے رب کے فیصلے تک صبر کر اور ان میں سے کسی گناہ گار یا بہت ناشکرے کا کہنا مت مان۔
ف 9 یہ اس طرف اشارہ ہے کہ عنقریب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کفار سے جہاد کرنے کا حکم دیا جائے گا۔ جب تک یہ حکم نہ آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی ایذارسانی کو صبرو ہمت سے برداشت کرتے رہے۔ ف 10 یعنی یہ اگر دھمکی یا لالچ دے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت حق کے کام سے بازرکھنا چاہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی بات پر ہرگز کان نہ دھریں بلکہ دعوت کا کام پوری توجہ اور تندہی سے جاری رکھیں۔ کہتے ہیں کہ بدکار سے مراد عتبہ بن ربیعہ ہے اور ناشکرے سے مراد ولید بن مغیرہ، کیونکہ ان دونوں بدبختوں نے آنحضرت ﷺ سے کہا تھا کہ آپ ﷺ لوگوں کو خالص توحید کی طرف بلانے سے باز آجائیے، ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جتنی دولت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں گے دیں گے اور جس عورت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح کردیں گے۔ (فتح القدیر)