وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا
اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو۔
ف 9 یعنی ان کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر مقدم رکھتے تھے۔ چنانچہ اگر کھانا کم ہوتا تو خود بھوکے رہ کر انہیں کھانا پیش کردیتے تھے۔ قیدی سے مراد ہر قیدی ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ’’بدر‘‘ کے روز رسول اللہ (ﷺ)نے صحابہ کرام (رض) کو حکم دیا کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا برتائو کریں۔ اس حکم کی تعمیل میں صحابہ کرام (رض) قیدیوں کو اپنے سے بہتر کھانا کھلاتے تھے حالانکہ وہ قیدی مسلمان نہ تھے ظاہر ہے کہ مسلمان قیدی کا حق تو اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ بعض مفسرین نے ” قیدی“ کے لفظ میں غلام اور عورت کو بھی شامل سمجھا ہے کیونکہ وہ بھی ایک طرح سے قیدی ہیں۔ نبی (ﷺ)نے اپنی وفات سے پیشتر جو آخری وصیت فرمائی وہ یہ تھی(الصَّلاةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ)نمازاور اپنے لونڈی غلاموں کا خیال رکھنا “۔ (ابن کثیر)