وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا
اور جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔
ف 3 صدیق یہ صدق سے مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی جو جملہ امور دین کی تصدیق کرنے ولا ہو اور کبھی کسی معاملہ میں خلجان اور رشک اس کے دل میں پیدا نہ ہو یا وہ جو رسول ﷺ کی تصدیق میں سبقت کرنے کی وجہ سے دوسرے کے لیے اسوۃ بنے اس اعتبار سے اس امت کے صدیق حضرت ابوبکر (رض) ہی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) دوسرے افاضل صحابہ (رض) کے لیے نمومہ بنتے ہیں حضرت علی (رض) بھی اول مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مگر چھوٹے بچے ہونے کی وجہ سے دوسروں کے لیے نمونہ نہیں بن سکتے چونکہ نبی کے بعد صدیق کا درجہ ہے اس لیے علما اہل سنت کا اجماع ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق (رض) آنحضرت ﷺ کے بعد سب سے افضل ہیں شہدا یہ شہید کی جمع ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جان دی اور امت محمد ﷺ کے بھی شہدا ہونے کا شرف حاصل ہے اور صالحین سے مراد وہ لوگ ہیں جو عقیدہ وعمل کے اعتبار سے ہر قسم کے فساد سے محفوظ رہے۔ ( رازی) مجموعہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ صحابہ (رض) کے دل میں استیاق پیدا ہوا کہ جنت میں آنحضرت ﷺ کی رفاقت حاصل ہوجائے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی صحیح مسلم میں ربیعہ بن کعب سلمی ٰ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے درخواست کی کہ جنت میں آپﷺ کا ساتھ نصیب ہو آپ ﷺ نے فرمایا : کثرت سجود (کثرت نوافل) سے میری مدد کرو ترمذی کی ایک حدیث میں ہے التاجر الصدوق الامین لنبتین والصد یقین والشدآ کہ امانتدار اور سچ بولنے والا تاجر قیامت کے دن انبیا اور شہدا کے ساتھ ہوگا (ابن کثیر۔ رازی)