يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔
ف 6 مو ضح کا ترجمہ اوفائدہ یہ ہے اولی الا مر اختیار والے باشاہ اور قاضی اور جو کسی کام پر مقرر ہو اس کے حکم پر چلنا ضروری ہے جبتک وہ خلاف خدا اور سول ﷺ حکم نہ کرے اگر صریح خلاف کرے تو وہ حکم نہ مانے ایک امیر کی اطاعت کے سلسلہ میں آپ ﷺ نے فرمایا انما الطاعتہ فی المعروف کہ امیر کی اطاعت صرف معروف یعنی نیکی میں ہے (ابن کثیر بحوالہ صحیحین) ف 7 اس آیت میں ایک نہایت اہم حکم دیا ہے یعنی باہمی نزاع کی صورت میں اللہ و رسول ﷺ کی طرف رجوع ہونا شرط ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت تو قرآن کی اتباع ہے اور رسول ﷺ کی اطاعت ہے۔ آپﷺ کی زندگی کے بعد آپ ﷺ کی سنت کی اطاعت ہے اور یہ اطاعتیں مستقل ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی طرح رسول اللہ ﷺ کی حدیث بھی اسلامی قانون کا مستقل ماخذ ہے۔ حضرت نواب صاحب لکھتے ہیں۔ اس آیت سے مقلدین دلیل لیتے ہیں تقلید کے واجب ہونے پر لیکن یہ دلیل نہیں ہو سکتی اولی الا مر سے بادشاہ اور حکام مراد ہیں (دیکھئے فوائد موضح) لیکن اگر سلف (رح) سے یہ منقول ہے کہ علمائے دین مراد ہیں تو اس میں اول تو کسی عالم کی تخصیص نہیں ہے دوسرے ہر فرض تسلیم عالم کی تقلید کا حک اسی وقت تک ہے کہ اس کا حکم قرآن و حدیث کے موافق ہو پھر خود رائمہ اربعہ نے اپنی تقلید سے منع فرمایا ہے اور قرآن نے حکم دیا ہے کہ ائمہ (رح) کی اتباع میں جھگڑ اہو تو اللہ و رسول ﷺ کی طرف رجوع ہونا چاہیے (ترجمان) ف 1 اگر دو مسلمان جھگڑتے ہیں ایک نے کہا چل شرع کی طر رجوع کریں دوسرے نے کہا میں شرع کو (کچھ) نہیں سمجھتا یا مجھے شرع سے کام نہیں وہ بے شک کافرہوا (موضح)