مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا
وہ لوگ جو یہودی بن گئے، ان میں سے کچھ لوگ بات کو اس کی جگہوں سے پھیر دیتے ہیں اور کہتے ہیں سَمِعْنَا وَ عَصَيْنَا (ہم نے سنا اور نہیں مانا) اور إسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ (سن اس حال میں کہ تجھے نہ سنایا جائے) اور رَاعِنَا (ہماری رعایت کر) (یہ الفاظ) اپنی زبانوں کو پیچ دیتے ہوئے اور دین میں طعن کرتے ہوئے (کہتے ہیں) اور اگر وہ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا (ہم نے سنا اور مانا) اور إسْمَع وَ انْظُرْنَا (سن اور ہماری طرف دیکھ) کہتے تو یقیناً ان کے لیے بہتر اور زیادہ درست ہوتا اور لیکن اللہ نے ان پر ان کے کفر کی وجہ سے لعنت کی، پس وہ ایمان نہیں لاتے مگر بہت کم۔
ف 6 اوپر کی آیت میں بیان فرمایا ہے کہ وہ گمراہی مول لیتے ہیں اب اس آیت میں چند امور کے ساتھ اس گمراہی کی تشریح فرمائی اور ان كو İأُوتُواْ نَصِيبٗا مِّنَ ٱلۡكِتَٰبِĬ اس لیے فرمایا کہ انہوں نے توراۃ میں موسیٰ ( علیہ السلام) کی نبوت تو معلوم کرلی مگر آنحضرت (ﷺ) کی نبوت کا ادراک نہ کر سكے (کبیر) یعنی تورات کے احکام میں تحریف کرتے ہیں (دیکھئے سورت مائدہ :13۔41) سورت مائدہ میں İمِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ Ĭ ہے یعنی تحریف لفظی کرتے ہیں اور ان الفاظ کو تورات سے نکال ڈالتے ہیں مثلا یہاں İعَن مَّوَاضِعِهِ Ĭسے مراد تحریف معنوی ہے یعنی تاویلات فاسدہ سے کام لیتے ہیں مگر حضرت ابراہیم کی اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی کہ یہاں اکلوتے بیٹے کی بجائے حضرت اسحق ( علیہ السلام) کو بنا دیا ہے۔ (کبیر۔ شوکانی) ہمارے زمانے میں بھی تمام بدعتیوں کا شیوہ ہ ہوگیا ہے کہ جو آیت یا حدیث امام مجتہد یا پیر ومرشد کے قول کے خلاف نظر آتی ہے اس کی تا ویل کرتے ہیں اور خدا و رسول (ﷺ) سے نہیں شرماتے کہ پیر و مرشد اور امام معصوم نہ تھے بخلاف پیغمبر (ﷺ) کے کہ ان سے خطا نہیں ہو سکتی (وحیدی) ف 7 یعنی زبان کو توڑ مروڑ کے رَٰعِنَا کہتے ہیں جو کلمہ شتم ہے (دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 104 )ان کی ایک گمراہی یہ بھی ہے کہ جب آنحضرت (ﷺ) سے کوئی حکم سنتے ہیں تو بظاہر سَمِعۡنَا کہتے ہیں مگر ساتھ ہی فرط عناد کی بنا پر عَصَيۡنَا (نہ مانا) بھی کہہ دیتے ہیں۔ اسی طرح آنحضرت (ﷺ) کو خطاب کرتے تو کہتے’’ سنو تم کو کوئی نہ سنائے‘‘ ظاہر میں یہ نیک دعا ہے کہ تم ہمیشہ غالب رہو کوئی تم کو بری بات نہ سنا سکے اور دل میں نیت رکھتے کہ توبہرا ہوجائے ایسی شرارت کرتے (کبیر، ابن کثیر) ف 8 یعنی یہ سب حرکتیں کر رہے ہیں اور پھر دین میں طعن کی غرض سے کہتے ہیں کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا توہمارا فریب معلوم کرلیتا اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے خبث کو ظاہر فرمادیا ہے اور وہی طعن الٹا آنحضرت (ﷺ) کی صدق نبوت کے لیے دلیل قاطع بن گیا۔ (کبیر)۔، ف 9 یعنی اگر یہ اس قسم کی حرکات اور طعن کی بجائے ایسے کلمات استعمال کرتے ہیں جن میں شرارت کی آمیزش نہیں ہوسکتی اور اخلاص سے پیش آتے مثلا عَصَيۡنَا کی بجائے أَطَعۡنَا کہتے اور غَيۡرَ مُسْمَعٍ کی بجائے اُنْظُرْنَا تو ان کے حق میں بہتر ہوتامگر افسوس ہے کہ یہ بہت ہی تھوڑے احکام پر ایمان رکھتے ہیں پس قَلِيلًا یہاں مصدر محذوف’’ ایمانا ‘‘کی صفت ہے۔