سورة القلم - آیت 42

يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور وہ سجدے کی طرف بلائے جائیں گے تو وہ طاقت نہیں رکھیں گے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 9 یعنی ان کی پیٹھ کی پسلیاں جڑ کر یخ بستہ ہوجائیں گی اور وہ سجدہ کے لئے جھلک نہ سکیں گے۔ اس آیت کی یہ تفسیر حدیث سے ثابت ہے حضرت ابوسعید خدری(رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت(ﷺ) نے فرمایا : ” ہمارا پروردگار اپنی پنڈلی کھولے گا۔ تمام مومن مرد اور عورتیں اس کو سجدہ کریں گے، لیکن جو لوگ دنیا میں محض دکھلاوے اور شہرت کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ رہ جائیں گے، وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تخته كی طرح اکڑ جائے گی…یہ حدیث صحیحین اور دوسری کتابوں میں متعدد اسانید سے آئی ہے۔ (شوکانی) بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں’’ کشف ساق“ کنایہ ہے شدت سے کہ قیامت کا دن بڑا سخت ہوگا، چنانچہ مجاہد ابراہیم نخعی اور عکرمہ وغیرہ نے یہی تفسیر بیان کی ہے اور حضرت ابن عباس(رض) سے بھی متعدد طرق کے ساتھ مروی ہے اور بعض علماء سے ایک دوسری تاویل بھی منقول ہے یعنی ” ساق الشئ“ کسی چیز کے اصل کو کہا جاتا ہے پس اس کے معنی یہ ہیں کہ ’’جس روز حقیقت حال ظاہر کردی جائے گی۔“ چنانچہ ر بیع بن انس نے اس کی تفسیر ” يَوْمَ يُكْشَفُ الغِطَاءُ“ سے کی ہے۔ مگر پہلی تفسیر حدیث سے ثابت ہے کہ یہاں ساق سے مراد ساق باری تعالیٰ ہے اور یہ آیت متشا بہات سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی کوئی تاویل کرنا بدعت پرست متکلمین کا طریقہ ہے۔ سلف صالحین ان کی کوئی تاویل نہیں کرتے بلکہ انہیں ان کے ظاہری معنی محمول کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ سمع، بصر، عین اور وجہ کی طرح اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ہونا بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے اس لئے ہم اس پر بلا کیف ایمان رکھتے ہیں۔ متأولین نے اهل حدیث اور سلف کو عدم تاویل کی وجہ سے تجسیم و تشبیہ کا طعنہ دیا ہے حالانکہ دوسری طرف ان کی یہ تاویلات مفضی الی التعطیل ہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں، جو لوگ اہل حدیث کو تجسیم و تشبیہ کا قائل قرار دیتے ہیں وہ خود خطاء پر ہیں (وحیدی)